کلمۃ اللّٰہ لامحدود ہیں


قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ کہدیجئے: میرے رب کے کلمات (لکھنے) کے لیے اگر سمندر روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے اگرچہ ہم اتنے ہی مزید (سمندر) سے کمک رسانی کریں۔

وَ لَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَۃٍ اَقۡلَامٌ وَّ الۡبَحۡرُ یَمُدُّہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ سَبۡعَۃُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کے ساتھ مزید سات سمندر مل (کر سیاہی بن) جائیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

27۔انسان کے مشاہداتی امور کی روشنی میں، محسوساتی دنیا میں بسنے والوں کے لیے ایک مفروضہ اور ایک مثال ہے۔ کلمات خدا یعنی کلمہ كُنْ کے نتیجے میں وجود میں آنے والی چیزوں کی ایک اجمالی فہرست تیار کرنا بھی ان درختوں سے بننے والے قلموں اور ان سمندروں سے بننے والی سیاہیوں کے بس میں نہیں ہے، چہ جائیکہ ان کلمات کا احاطہ ہو سکے۔ کیونکہ محدود کے لیے لا محدود کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ سارے سمندر سیاہی بن جائیں تو خود سمندری موجودات کی فہرست تیار کرنے کے لیے بھی ناکافی ہو گا۔

2۔اللہ کے ایک ارادے سے مخلوق وجود میں آ جاتی ہے، خواہ وہ مخلوق ایک ہو یا ایک کھرب۔ لہٰذا اللہ کے لیے خلق اور اعادﮤ خلق، کثرت یا قلت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب یکساں طور پر آسان ہیں۔