آیت 27
 

وَ لَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَۃٍ اَقۡلَامٌ وَّ الۡبَحۡرُ یَمُدُّہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ سَبۡعَۃُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کے ساتھ مزید سات سمندر مل (کر سیاہی بن) جائیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ: انسان کے مشاہداتی امور کی روشنی میں محسوساتی دنیا میں بسنے والوں کے لیے ایک مثال ہے کہ کلمات خدا یعنی کلمۂ کن کے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودات کی ایک اجمالی فہرست تیار کرنا بھی روئے زمین پر موجود درختوں سے بننے والے قلموں اور سمندروں سے بننے والی سیاہیوں کے بس میں نہیں ہے خواہ اس سمندر کے ساتھ مزید سات سمندر مل جائیں کیونکہ محدود کے لیے لا محدود کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ سارے سمندر سیاہی بن جائیں تو خود سمندری موجودات کی فہرست تیار کرنے کے لیے بھی شاید ناکافی ہو گا۔

دوسرے لفظوں میں کلمات اللّٰہ کی یہ تشریح ہو سکتی ہے: اللہ تعالیٰ کے کلمات ، وہ ارادہ اور وہ تخلیق و ایجاد اور وہ فیوض ہیں جو ہمیشہ جاری رہتے ہیں: کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ ۔ (۵۵ رحمٰن: ۲۹) وہ ہر روز ایک (نئی) کرشمہ سازی میں ہے۔ مثل مشہور ہے: لا انقطاع فی الفیض ۔ اللہ تعالیٰ کا فیض منقطع نہیں ہو سکتا۔ فیض خدا ہمیشہ جاری اور لا محدود ہے۔ ان لامحدود کلمات کا احاطہ کرنا کسی محدود کے بس میں نہیں ہے خواہ وہ محدود کتنا ہی عظیم اور وسیع کیوں نہ ہو۔

سورہ کہف آیت ۱۰۹ میں بھی کلمات اللہ کی تشریح ہو چکی ہے۔

اہم نکات

۱۔ فیوض الٰہی، کلمات اللہ کا احاطہ ناممکن ہے: مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۔۔۔۔


آیت 27