اَلَمۡ تَرَ اَنَّ الۡفُلۡکَ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِنِعۡمَتِ اللّٰہِ لِیُرِیَکُمۡ مِّنۡ اٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ﴿۳۱﴾

۳۱۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کشتی سمندر میں اللہ کی نعمت سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے، تمام صبر اور شکر کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ فَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوۡرٍ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور جب ان پر (سمندر کی) موج سائبان کی طرح چھا جاتی ہے تو وہ عقیدے کو اسی کے لیے خالص کر کے اللہ کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کچھ اعتدال پر قائم رہتے ہیں اور ہماری نشانیوں کا وہی انکار کرتا ہے جو بدعہد ناشکرا ہے۔

32۔ جب انسان کے دل و دماغ سے دنیاوی خواہشات کا پردہ ہٹ جاتا ہے اور انسان کو صرف اپنی فطرت کے ساتھ سرگوشی کرنے کا موقع ملتا ہے تو اس وقت اس فطرت کو اس کے خالق کے علاوہ کوئی سہارا نظر نہیں آتا، لیکن جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو کچھ تو اس درس کو یاد رکھتے ہیں اور کچھ لوگ پھر خواہشات کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ وَ اخۡشَوۡا یَوۡمًا لَّا یَجۡزِیۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِہٖ ۫ وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ ہُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِہٖ شَیۡئًا ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ٝ وَ لَا یَغُرَّنَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اے لوگو! اپنے رب (کے غضب) سے بچو اور اس دن کا خوف کرو جس دن نہ باپ اپنے بیٹے کے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آئے گا، اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے لہٰذا دنیا کی یہ زندگی تمہیں دھوکہ نہ دے اور دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں نہ رکھے۔

33۔ قیامت کی ہولناکی کی یہ صورت ہو گی کہ نہ صرف باپ بیٹے کے لیے اور بیٹا باپ کے لیے کچھ نہ کر سکے گا، بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بھاگیں گے۔

اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ ۚ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ﴿٪۳۴﴾

۳۴۔ قیامت کا علم یقینا اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمانے والا ہے اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی، یقینا اللہ خوب جاننے والا، بڑا باخبر ہے۔

34۔ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ : جو کچھ رحموں میں ہے، صرف اللہ جانتا ہے۔ یہاں سوال کرتے ہیں کہ انسان بھی جاننے لگے ہیں کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے، لڑکا ہے یا لڑکی؟ جواب یہ ہے کہ اول تو انسان بچے کی تخلیق مکمل ہونے کے بعد جانتا ہے۔ بچے کے پیدا ہونے کے بعد تو سب جانتے ہیں، لیکن انسان یہ نہیں جانتا کہ چار سو میلین جرثومۂ پدر میں سے کون سا جرثومہ ہے جو تخم مادر کے ساتھ جفت ہو گیا اور کس خاصیت کا جرثومہ ہے۔ چونکہ چار سو میلین جرثوموں میں سے ہر ایک اپنی جدا خاصیت رکھتا ہے۔ ثانیاً انسان صرف بچے کے مادی وجود کو جانتا ہے، اس کی حقیقت کو نہیں جانتا کہ کس خاصیت اور صلاحیت کا بچہ ہے۔ مزید تشریح کے لیے سورہ رعد آیت 8 ملاحظہ فرمائیں۔

اپنی علمی پیشرفت اور تسخیر طبیعیت کے غرور کے باجود انسان کو یہ نہیں معلوم کہ کل کیا کچھ پیش آنے والا ہے اور یہ بھی نہیں معلوم کہ اسے موت کب اور کہاں آئے گی۔ کئی پردوں اور تاریکیوں کے پیچھے کھڑا انسان اللہ کی قدرت اور علم کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے کہ وہ مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟