اِلَّا مَنۡ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسۡنًۢا بَعۡدَ سُوۡٓءٍ فَاِنِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ البتہ جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو پھر برائی کے بعد اسے نیکی میں بدل دیا ہو تو یقینا میں بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔

11۔ مرسلین میرے حضور ڈرا نہیں کرتے کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ غیر مرسلین ڈر سکتے ہیں۔ غیر مرسلین میں سے وہ لوگ جو اہل توبہ ہیں اور گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں وہ بھی اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں اور ان کے لیے بھی امن حاصل ہو سکتا ہے۔

وَ اَدۡخِلۡ یَدَکَ فِیۡ جَیۡبِکَ تَخۡرُجۡ بَیۡضَآءَ مِنۡ غَیۡرِ سُوۡٓءٍ ۟ فِیۡ تِسۡعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ قَوۡمِہٖ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور اپنا ہاتھ تو اپنے گریبان میں ڈالیے بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا، یہ ان نو نشانیوں میں سے ہے جنہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف ـ(آپ کو جانا ہے) بے شک وہ بڑے فاسق لوگ ہیں۔

فَلَمَّا جَآءَتۡہُمۡ اٰیٰتُنَا مُبۡصِرَۃً قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚ۱۳﴾

۱۳۔ جب ہماری نشانیاں نمایاں ہو کر ان کے پاس آئیں تو انہوں نے کہا: یہ تو صریح جادو ہے۔

وَ جَحَدُوۡا بِہَا وَ اسۡتَیۡقَنَتۡہَاۤ اَنۡفُسُہُمۡ ظُلۡمًا وَّ عُلُوًّا ؕ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿٪۱۴﴾

۱۴۔ وہ ان نشانیوں کے منکر ہوئے حالانکہ ان کے دلوں کو یقین آگیا تھا، ایسا انہوں نے ظلم اور غرور کی وجہ سے کیا، پس اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔

14۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رسول برحق ہونے میں کس کا شک و شبہ باقی رہ سکتا ہے؟ لیکن خواہش پرستی، سرکشی اور حق والوں کے ساتھ عناد کی وجہ سے وہ حق کو قبول نہیں کر پاتے تھے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ عِلۡمًا ۚ وَ قَالَا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّنۡ عِبَادِہِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور بتحقیق ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا اور ان دونوں نے کہا: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عنایت فرمائی۔

وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡفَضۡلُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور سلیمان داؤد کے وارث بنے اور بولے: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں سب طرح کی چیزیں عنایت ہوئی ہیں، بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے۔

16۔ حیوانات اور پرندوں میں بھی افہام و تفہیم کے ذرائع ہوتے ہیں۔ یہی ذرائع ان کی بولی ہیں جسے آج لوگ اندازوں سے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام ظن اور اندازے سے نہیں، بلکہ ان کی بولی کو اسی طرح سمجھتے تھے جس طرح انسان کی بولی سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن میں ھدھد اور چیونٹی کی گفتگو وغیرہ کا ذکر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات طبیعیاتی قانون کی عام دفعات کے تحت نہیں ہے، جیسا کہ کچھ لوگ اسے سائنسی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ وَ الطَّیۡرِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور سلیمان کے لیے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اور ان کی جماعت بندی کی جاتی تھی ۔

17۔اس آیت کی نص صریح کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے جنات مسخر تھے، بلکہ ان کے لیے جن و انس کے ساتھ پرندے بھی مسخر تھے۔ لہٰذا اس امر میں کسی قسم کی تاویل قرآن کی معنوی تحریف ہو گی۔

حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَوۡا عَلٰی وَادِ النَّمۡلِ ۙ قَالَتۡ نَمۡلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمۡ ۚ لَا یَحۡطِمَنَّکُمۡ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں کچل نہ ڈالے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔

18۔انبیاء علیہم السلام کی روح میں وہ لطافت موجود ہوتی ہے جس سے وہ وحی الہٰی کا ادراک کرتے ہیں۔ اس لیے چیونٹی کا کلام سننا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ تعجب اس بات پر ہونا چاہیے کہ چیونٹی کے ادراک میں یہ بات آگئی کہ یہ لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کا لشکر ہیں اور وہ غیر ارادی طور پر انہیں کچل ڈالیں گے۔

فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوۡلِہَا وَ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰىہُ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اس کی باتیں سن کر سلیمان ہنستے ہوئے مسکرائے اور کہنے لگے: میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور یہ کہ میں ایسا صالح عمل انجام دوں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما۔

19۔ ترتیب کلام سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بعید نہ ہو گا کہ شکر اور قدردانی کی قدروں کا مالک ہونے کے بعد وہ عمل صالح بجا لانا ممکن ہوتا ہے جس میں اللہ کی رضامندی ہے اور صالح بندوں میں داخل ہونا صرف عمل سے ممکن نہیں ہے، بلکہ اللہ کی رحمت سے ممکن ہے: بِرَحۡمَتِکَ ۔

وَ تَفَقَّدَ الطَّیۡرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَی الۡہُدۡہُدَ ۫ۖ اَمۡ کَانَ مِنَ الۡغَآئِبِیۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ سلیمان نے پرندوں کا معائنہ کیا تو کہا: کیا بات ہے کہ مجھے ہدہد نظر نہیں آ رہا؟ کیا وہ غائب ہو گیا ہے؟

20۔ لشکر سلیمان علیہ السلام میں مسخر ایک خاص ہدہد کا ذکر ہو سکتا ہے کہ جس کا غائب ہونا حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے اہمیت کا حامل تھا۔