آیات 10 - 11
 

وَ اَلۡقِ عَصَاکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہۡتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدۡبِرًا وَّ لَمۡ یُعَقِّبۡ ؕ یٰمُوۡسٰی لَا تَخَفۡ ۟ اِنِّیۡ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الۡمُرۡسَلُوۡنَ﴿٭ۖ۱۰﴾

۱۰۔ اور آپ اپنا عصا پھینک دیں، جب موسیٰ نے دیکھا کہ عصا سانپ کی طرح جنبش میں آ گیا ہے پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر (بھی) نہ دیکھا (ندا آئی) اے موسیٰ! ڈریے نہیں، بے شک میرے حضور مرسلین ڈرا نہیں کرتے۔

اِلَّا مَنۡ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسۡنًۢا بَعۡدَ سُوۡٓءٍ فَاِنِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ البتہ جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو پھر برائی کے بعد اسے نیکی میں بدل دیا ہو تو یقینا میں بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔

تشریح کلمات

جَآنٌّ:

( ج ن ن ) چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

سورہ طٰہ آیت بیس (۲۰) میں اس مطلب کی تشریح ہو گئی کہ عصا کا سانپ بن جانا معجزہ ہے اور معجزہ عام طبیعیاتی قوانین کے مطابق نہیں ہوا کرتے۔

۱۔ کَاَنَّہَا جَآنٌّ: گویا یہ چھوٹا سانپ ہے۔ یعنی جنبش اور حرکت کی تیزی میں چھوٹے سانپ کی طرح تھا۔ لہٰذا یہ تعبیر دوسری آیات میں موجود تعبیر کے ساتھ متصادم نہیں جن میں کبھی ثُعبان سے کہا جو بڑے اژدھے کو کہتے ہیں۔ کبھی حیۃٌ سانپ کہا ہے۔ بعض اس کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ عصا پہلی مرتبہ چھوٹے سانپ کی شکل میں آیا تھا اور فرعون کے دربار میں اژدھے کی شکل میں آیا تھا۔

۲۔ وَّلّٰی مُدۡبِرًا: پیٹھ پھیر کر پلٹ گئے۔ یہ خوف ایک قدرتی امر تھا جس کی تشریح سورہ طٰہ میں ہو گئی ہے۔

۳۔ لَا تَخَفۡ: ’’خوف نہ کرو‘‘ فراہمی امن کے اظہار کے لیے ہے۔ چنانچہ سورۃ القصص آیت ۳۱ میں آئے گا جہاں فرمایا: وَ لَا تَخَفۡ ۟ اِنَّکَ مِنَ الۡاٰمِنِیۡنَ ۔

۴۔ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الۡمُرۡسَلُوۡنَ: پیغمبروں کو اللہ کی بارگاہ میں جو قرب حاصل ہے اس کے تحت امن حاصل رہے گا۔ موسیٰ علیہ السلام کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ آپ ؑاللہ کی بارگاہ میں ہیں۔ جو اللہ کی بارگاہ میں ہوتا ہے وہ ڈرا نہیں کرتا۔

۵۔ اِلَّا مَنۡ ظَلَمَ: خوف اسے لاحق ہونا چاہیے جو اپنے نفس اور دوسروں پر ظلم کر کے میری بارگاہ میں آئے۔ ایسے ظالم کو میری عدالت سے خوف ہونا چاہیے۔

۶۔ ثُمَّ بَدَّلَ حُسۡنًۢا: حتیٰ کہ جس نے ظلم کیا ہے اس کے لیے بھی چارہ کار موجود ہے کہ وہ میری بارگاہ میں اطمینان سے آئے۔ وہ چارہ کار یہ ہے کہ وہ اپنے ظلم کو نیکی سے بدل دے تو میں اس کے گناہ کو بخش دوں گا۔ ظلم کو نیکی سے بدلنے کی دو صورتیں متصور ہیں: ایک یہ کہ توبہ کر لے۔ دوسری صورت بھی ہو سکتی ہے کہ ظلم کو ترک کر کے اس کی جگہ نیکیاں کرنا شروع کرے تو اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ۔۔۔۔ (۱۱ ہود: ۱۱۴) نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں جیسے شرک چھوڑ ایمان لے آئے تو ظلم نیکی میں بدل جاتا ہے۔


آیات 10 - 11