لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیۡدًا اَوۡ لَاَاذۡبَحَنَّہٗۤ اَوۡ لَیَاۡتِیَنِّیۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ﴿۲۱﴾

۲۱۔ میں اسے ضرور سخت ترین سزا دوں گا یا میں اسے ذبح کر دوں گا مگر یہ کہ میرے پاس کوئی واضح عذر پیش کرے۔

فَمَکَثَ غَیۡرَ بَعِیۡدٍ فَقَالَ اَحَطۡتُّ بِمَا لَمۡ تُحِطۡ بِہٖ وَ جِئۡتُکَ مِنۡ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیۡنٍ﴿۲۲﴾

۲۲۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے (حاضر ہو کر) کہا: مجھے اس چیز کا علم ہوا ہے جو آپ کو معلوم نہیں اور ملک سبا سے آپ کے لیے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔

اِنِّیۡ وَجَدۡتُّ امۡرَاَۃً تَمۡلِکُہُمۡ وَ اُوۡتِیَتۡ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ لَہَا عَرۡشٌ عَظِیۡمٌ﴿۲۳﴾

۲۳۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اور اسے ہر قسم کی چیزیں دی گئی ہیں اور اس کا عظیم الشان تخت ہے۔

23۔ ملک سبا وہی ہے جسے آج کل یمن کہا جاتا ہے۔ یہ ملک اس زمانے میں اپنی زرخیزی اور تجارت کی وجہ سے نہایت دولت مند ملک شمار ہوتا تھا اور اپنے وقت کے عظیم تمدن کا حامل تھا۔ وَّ لَہَا عَرۡشٌ عَظِیۡمٌ سے اس ملک کے تمدن کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وَ اُوۡتِیَتۡ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے اس زمانے کی تمام آسائشیں حاصل تھیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ بات قابل فہم نہیں ہے کہ ہدہد جیسے ایک پرندے میں یہ شعور موجود ہو کہ وہ اس ملک کی خصوصیات اور مذہب وغیرہ کو سمجھے اور بیان کرے۔

حیوانات کی شعوری دنیا کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ بعض حیوانات میں بعض باتوں کا شعور وادراک انسانوں سے زیادہ ہے۔ قرآن کی معنوی تحریف کے مرتکب ہونے والوں کے نزدیک مادی سائنسدان اللہ سے زیادہ قابل اعتماد ہیں!! آخر یہ لوگ ایسے اللہ کو ماننے کی زحمت کیوں کرتے ہیں جس کی باتوں پر یقین نہیں آتا؟!! چنانچہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک ہدہد کے لیے ایسا شعور و ادراک ممکن نہیں، پس ہدہد حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کے ایک جرنیل کا نام تھا۔

وَجَدۡتُّہَا وَ قَوۡمَہَا یَسۡجُدُوۡنَ لِلشَّمۡسِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ فَصَدَّہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ فَہُمۡ لَا یَہۡتَدُوۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا رکھے ہیں اور اس طرح ان کے لیے راہ خدا کو مسدود کر دیا ہے، پس وہ ہدایت نہیں پاتے۔

24۔ قرآن کی تائید عرب کی قدیم تاریخ سے ہوتی ہے کہ سبا کی قوم آفتاب پرستی کے مذہب پر قائم تھی۔

اَلَّا یَسۡجُدُوۡا لِلّٰہِ الَّذِیۡ یُخۡرِجُ الۡخَبۡءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ یَعۡلَمُ مَا تُخۡفُوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ کیا وہ اللہ کے لیے سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہری اعمال کو جانتا ہے؟

25۔ الۡخَبۡءَ : پوشیدہ۔ اللہ آسمان اور زمین کے شکم میں پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے۔ سورج کی شعاعوں میں پوشیدہ کرنوں سے زمین میں رعنائیاں نکالتا ہے اور زمین کے شکم میں پوشیدہ چیزوں کو نکال کر انسان کے دستر خوان پر طرح طرح کے میوے اور کھانے سجاتا ہے۔

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ٛ۲۶﴾۩

۲۶۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش عظیم کا رب ہے۔

قَالَ سَنَنۡظُرُ اَصَدَقۡتَ اَمۡ کُنۡتَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ سلیمان نے کہا: ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کیا تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔

اِذۡہَبۡ بِّکِتٰبِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقِہۡ اِلَیۡہِمۡ ثُمَّ تَوَلَّ عَنۡہُمۡ فَانۡظُرۡ مَا ذَا یَرۡجِعُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ میرا یہ خط لے جا اور اسے ان لوگوں کے پاس ڈال دے پھر ان سے ہٹ جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔

قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اِنِّیۡۤ اُلۡقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیۡمٌ﴿۲۹﴾

۲۹۔ ملکہ نے کہا: اے دربار والو! میری طرف ایک محترم خط ڈالا گیا ہے ۔

اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے: خدائے رحمن رحیم کے نام سے