حیوانات کی بولی اور حضرت سلیمان ؑ


وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡفَضۡلُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور سلیمان داؤد کے وارث بنے اور بولے: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں سب طرح کی چیزیں عنایت ہوئی ہیں، بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے۔

16۔ حیوانات اور پرندوں میں بھی افہام و تفہیم کے ذرائع ہوتے ہیں۔ یہی ذرائع ان کی بولی ہیں جسے آج لوگ اندازوں سے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام ظن اور اندازے سے نہیں، بلکہ ان کی بولی کو اسی طرح سمجھتے تھے جس طرح انسان کی بولی سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن میں ھدھد اور چیونٹی کی گفتگو وغیرہ کا ذکر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات طبیعیاتی قانون کی عام دفعات کے تحت نہیں ہے، جیسا کہ کچھ لوگ اسے سائنسی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔