آیت 19
 

فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوۡلِہَا وَ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰىہُ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اس کی باتیں سن کر سلیمان ہنستے ہوئے مسکرائے اور کہنے لگے: میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور یہ کہ میں ایسا صالح عمل انجام دوں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما۔

تشریح کلمات

تبسم:

( ب س م ) مسکرانا،۔ ہنسی سے کمتر یعنی ہونٹ کشادہ کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں آیا ہے: بل کَانَ ضَحِکُہُ التَّبَسُّمَ الْحَدِیثَ ۔ ( وسائل الشیعۃ ۱۲: ۲۰۹) آپؐ کا مسکرانا ہی پوری ہنسی تھی۔

الضحک:

( ض ح ک ) ہنسنا۔ تبسم سے بیشتر، دانتوں کے نظر آنے تک ہونٹ کا کھلنا۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام کی ہنسی تبسم یعنی مسکرانے تک محدود ہوتی ہے۔ اس کے بعد قہقہہ آتا ہے۔ لہٰذا فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا ہنستے ہوئے تبسم کیا۔ یہی ہو سکتا ہے کہ تبسم ہی انبیاء علیہم السلام کی ہنسی ہے اس لیے تبسم کو ضحک کہا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوۡلِہَا: اس میں صراحت موجود ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی باتیں سمجھ لیں۔ کیسے سمجھ لیں ؟ اس کی کیفیت ہم نہیں سمجھ سکتے۔ پہلے آیت ۱۶ کے ذیل میں بتایا کہ پیغمبران جو وحی الٰہی کی لطیف آواز سن لیتے ہیں پرندوں اور حیوانوں کی زبان سمجھنا ان کے لیے نہ مشکل ہے، نہ باعث تعجب۔چونکہ پیغمبر اسے عام عادی قوت سماعت سے نہیں سنتے۔ وہ وحی، اس قوت ادراک سے سنتے ہیں جو اس عام بشری قوت سماعت کے ماورا میں ہے۔

۲۔ وَ قَالَ اَوۡزِعۡنِیۡۤ: عرض کیا: پروردگار مجھے یہ توفیق دے کہ میں ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عنایت کی ہیں۔ اس جملے میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں :

الف: شکر ادا کرنے کی توفیق خود اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی کسی نعمت پر شکر کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے جس پراسے شکر کرنا چاہیے۔ اگر شکر ادا ہو گیا تو یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے جس پر شکر کرنا چاہیے۔ اس طرح یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ لہٰذا اللہ کے شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ یہاں سے ہے:

وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۔۔۔۔ (۳۱ لقمان: ۱۲)

اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے (فائدے کے) لیے شکر کرتا ہے۔

ب: وَ عَلٰی وَالِدَیَّ: انسان کو ان نعمتوں کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے جو اس کے والدین کو ملی ہیں۔ چونکہ اولاد کی قسمت والدین کی قسمت سے منسلک ہوتی ہے اور انسان کی شخصیت پر والدین کے وارثتی اور تربیتی نقوش ثبت ہوتے ہیں۔

ج: حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ کو قرآن ان بہتانوں سے پاک قرار دیتا ہے جو توریت میں ان پر عائد کیے گئے ہیں۔ (توریت میں آیا ہے: حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ اوریا کی بیوی تھیں۔ حضرت داؤدعلیہ السلام نے معاذ اللہ اس کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کیے اور اوریا کو حیلہ و بہانے سے قتل کرایا۔ اس کی بیوی کو اپنی زوجات میں شامل کیا۔ سلیمان علیہ السلام اس عورت سے پیدا ہوئے۔)

۳۔ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰىہُ: عمل، صالح اس وقت ہوتا ہے جب یہ عمل موجب رضایت رب واقع ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے اقتدار و سلطنت کو رضائے رب کے حصول میں صرف کرنے کی دعا کر رہے ہیں۔

۴۔ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ: اللہ کے بعض خاص صالح بندے ہوتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام یہی دعا کرتے ہیں کہ ان صالح بندوں میں ان کا شمار ہو۔

اہم نکات

۱۔ نعمت کے بعد شکر نعمت کی توفیق بھی ایک نعمت ہے۔

۲۔ والدین پر اللہ کی نعمت اولاد پر نعمت ہے۔

۳۔ رضائے رب اور صالح بندوں میں شمار ہونا انبیاء علیہم السلام کی منزل ہے۔


آیت 19