آیت 16
 

وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡفَضۡلُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور سلیمان داؤد کے وارث بنے اور بولے: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں سب طرح کی چیزیں عنایت ہوئی ہیں، بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ: حضرت سلیمان، حضرت داؤد علیہما السلام کے وارث بنے۔ کس چیز کے وارث بنے؟

ہمارا موقف یہ ہے کہ وہ مال و حکومت کے وارث بنے کیونکہ باپ کی وفات پر اس کا مال اولاد کی طرف منتقل ہو جاتا ہے لیکن علم و نبوت میں ایسا نہیں ہے کہ باپ کا انتقال ہوتے ہی باپ کا علم اولاد کی طرف منتقل ہو جائے۔ اسی طرح نبوت بھی ہے۔ چنانچہ باپ عالم ہوتا ہے، بیٹا جاہل۔ نبوت میں بھی ایسا ہے۔ باپ نبی ہیں، بیٹا نہیں۔

حتیٰ اگر باپ بیٹا دونوں نبی ہیں تو بھی بیٹے کی نبوت اللہ کی طرف سے ہے، باپ کی طرف سے نہیں۔ البتہ باپ کے بعد مسند نبوت پر فائز ہونے کی صورت میں مجازاً وارث کہتے ہیں۔

لہٰذا یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ میراث کا اطلاق مال پر حقیقتاً ہوتا ہے، علم و نبوت پر مجازاً۔ جیسے اِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثۃَ ُالْاَنْبِیَائِ ۔ (الکافی ۱: ۳۲) علماء انبیاء کے وارث ہیں ، میں علماء کو وارث کہا ہے۔

آیت میں وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ اطلاق ہے جو مالی وراثت پر حقیقتاً صادق آتا ہے۔ البتہ مال کے علاوہ علم و نبوت اس میں شامل ہونے پر دلیل کی ضرورت ہے۔ اگر اطلاق مقصود نہ ہوتا تو مفعول دوم کاذکر ہوتا۔ مثلاً وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ علماً ہوتا۔

فخر الدین رازی سیاق آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ وراثت سے مراد صرف مال نہیں ہو سکتا اس کی چند وجوہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

اگر کوئی مال و حکومت دونوں کے وارث ہونے کا قائل ہو جائے تو آیت کے سیاق پر مبنی وجوہات کی بنا پر نہیں، حدیث کے ظاہری معنی کی بنا پر رد کیا جا سکتا ہے۔

فخر الدین رازی کو اعتراف ہے کہ آیت کے حقیقی مصداق سے ہاتھ اٹھانے کے لیے حدیث کا سہارا لینا پڑے گا۔

پس معلوم ہوا وَرِثَ کے حقیقی معنی مالی وراثت ہے اور حدیث اس حقیقی معنی کے مقابلے میں ہے۔ پس یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن سے انبیاء علیہم السلام کی مالی وراثت ثابت ہے۔ بات صرف حدیث کی رہ جاتی ہے۔ ذیل میں ہم حدیث پر گفتگو کرتے ہیں:

i۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آیہ وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ﴿﴾ (۲۶ شعراء: ۲۱۴) اپنے قریبی ترین رشتہ داروں کی تنبیہ کرو) کے تحت خصوصی طور پر واجب ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے حلال و حرام بیان کریں۔

تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کو نہیں بتایا کہ آپ کو میری میراث نہیں ملے گی؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو علی الاعلان بتاتے ہیں :

فاطمۃ بضعۃ منی یوذینی ما یوذیہا ۔ (بحار ۲۳: ۲۳۴)

فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو فاطمہ کو اذیت پہنچائے اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حکم اپنی اولاد تک نہیں پہنچایا؟ یا جناب سیدہ (س) نے اپنے بابا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کر کے میراث کا مطالبہ کیا؟ آپ ان دونوں باتوں میں سے کس بات کو اختیار کریں گے؟

ہم پر یہ سوال نہیں آتا چونکہ ہم یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ ایسا کوئی حکم ہے ہی نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے وارث نہیں ہوتے بلکہ ہم تو قرآنی تصریحات کے مطابق اس بات کے قائل ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی اولاد اپنے آباء و اجداد کی وارث بنتی ہے۔

البتہ آپ ہم سے یہ سوال کر سکتے ہیں :اس حدیث کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لا نورث ما ترکناہ صدقۃ ۔

اس حدیث کے بارے میں ہم یہ موقف اختیار کرتے ہیں :

ii۔ رسولؐ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے: جو چیز ہم بطور صدقہ چھوڑ جاتے ہیں اس کا ہم کسی کو وارث نہیں بناتے، نہ یہ کہ جو چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔ لفظ: صدقۃٌ نہیں ، صدقۃً ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقات بہت تھے جو بطور فئی آپؐ کی ملکیت میں آئے تھے۔

چنانچہ امام شمس الدین سرخسی نے اپنی شہرہ آفاق فقہی کتاب المبسوط جلد ۱۲ صفحہ ۳۶ باب الوقف طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت میں حدیث کے یہی معنی کیے ہیں۔ ان کی عبارت ملاحظہ ہو:

واستدل بعض مشایخنا رحمہم اللہ تعالیٰ بقولہ علیہ الصلوۃ و السلام: انا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ۔ فقالوا معناہ ما ترکناہ صدقۃ لا یورث ذلک۔ ولیس المراد ان اموال الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام لا تورث وقد قال اللہ تعالیٰ: وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ۔ فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ﴿﴾ یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ۔۔ فحاشا ان یتکلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخلاف المنزل فعلی ھذا التاویل فی الحدیث بیان ان لزوم الوقف من الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام خاصۃ بناء علی ان الوعد منہم کالعھد من غیرہم ۔

ہمارے بعض اساتذہ نے وقف کے ناقابل تنسیخ ہونے پر رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: انا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ ۔ وہ کہتے ہیں اس حدیث کا مطلب یہ ہے: جو مال بطور صدقہ (وقف) ہم نے چھوڑا ہے وہ ارث میں نہیں جاتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں انبیاء کے اموال کے وارث نہیں ہوتے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ۔ نیز فرمایا: فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ﴿﴾یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ .... (۱۹ مریم:۵،۶)

پس ممکن نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کے خلاف بات کریں۔ حدیث کی اس توجیہ سے معلوم ہوا انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف سے وقف ناقابل تنسیخ ہونا ایک خصوصی بات ہے۔ کیونکہ انبیاء علیھم الصلواۃ والسلام کے وعدے دوسرے لوگوں کے معاہدے کی طرح ہیں۔

ابن عطیہ اندلسی اپنی تفسیر المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز ۴: ۲۵۳ میں اور قرطبی اپنی مشہور تفسیر الجامع لاحکام القرآن ۱۴: ۱۶۴ میں اس حدیث کے یہ معنی کرتے ہیں :

و یحتمل قولہ علیہ السلام ’’انا معشر الانبیاء لا نورث‘‘ ان یرید ان ذلک من فعل الانبیاء و سیرتہم وان کان فیہم من ورث مالہ کزکریا علی اشہر الاقوال ۔

اور احتمال ہے انا معشر الانبیاء لا نورث کا مطلب یہ ہو کہ وارث نہ بنانا انبیاء کا اپنا عمل اور سیرت ہے ورنہ ان میں ایسے انبیاء ہیں جن کے مال کے وارث تھے جیسے زکریا۔ جیسا کہ مشہور قول ہے۔

ابن عطیہ اپنی تفسیر المحرر الوجیز ۴:۵ سورہ مریم آیت ۵ کے ذیل میں لکھتے ہیں :

ویحتمل قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا معشر الانبیاء لا نورث ان لا یرید بہ العموم بل انہ غالب امرہم ۔

احتمال ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان انا معشر الانبیاء لا نورث سے مراد غالب انبیاء کا معاملہ ہو، تمام انبیاء نہ ہوں۔

قاضی عیاض نے اپنی کتاب الالماع صفحہ نمبر۱ میں صدقۃ کی بالفتح اور بالرفع دونوں صورتیں ممکن ہے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

iii۔ خود حضرت ابوبکر نے اس حدیث کے خلاف عمل کیا۔ جب عباسؓ اور حضرت علی علیہ السلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمامہ اور تلوار کی میراث میں اختلاف ہوا تو ان چیزوں کو بطور میراث حضرت علی علیہ السلام کے حق میں فیصلہ دیا۔ ( رسالۃ حول حدیث نحن معاشر الانبیاء ص ۲۳) اگر صدقہ ہوتا تو حضرت علی علیہ السلام کے لیے صدقہ حرام تھا۔

iv۔ مصر کے نامور عالم محمود ابوریہ کہتے ہیں:

حضرت ابوبکر کو چاہیے تھا کہ ترکہ رسول میں سے کچھ بطور عطیہ حضرت زہرا کو دے دیتے جیسا کہ انہوں نے زبیر بن عوام اور محمدبن مسلمہ کو ترکہ رسول میں سے دے دیا تھا۔

v۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھیے یہی فدک حضرت عثمان نے مروان کو دے دیا۔ مردان راندہ رسول، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں شہر بدر کیا تھا وہ آج ترکہ رسول ؐپر قابض ہے اور بنت رسول محروم۔

vi۔ حضرت عمر نے اس حدیث کے خلاف عمل کیا جب خیبر کی جائیدادوں کو ازواج نبی میں تقسیم کیا۔ (جامع الاصول) کہتے ہیں ازواج کے حق مہر میں دیا تھا۔ جب کہ قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان ہے کہ ازواج کا مہر رسول اللہؐ نے زندگی میں ادا کیا تھا۔ ملاحظہ ہو:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۵۰)

اے نبی! ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کی ہیں جن کے مہر آپ نے دے دیے ہیں۔

اس جگہ ابن ابی الحدید نے نہج البلاغۃ کی شرح میں حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان بلی کانت فی ایدینا فدک کے ذیل میں لکھا ہے:

میں نے علی بن الفارقی ، جو المدرسۃ الغربیۃ بغداد کے مدرس تھے، سے پوچھا: کیا فاطمہ سچی تھیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: پھر حضرت ابوبکر نے فدک ان کو کیوں نہیں دیا؟ مسکرا کر کہا: اگر آج فدک دے دیتے تو کل فاطمہ اپنے شوہر کی خلافت کا بھی دعویٰ کرتیں تو ابوبکر کو اپنے مقام سے ہٹا دیتیں۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں :

بات اپنی جگہ درست ہے اگرچہ اسے بطور مذاق کہا گیا ہے۔

یہاں وہ احادیث قابل توجہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف مقامات پر حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کو ناراض کرنے، اذیت دینے کے بارے میں خصوصی طور پر ارشاد فرمائیں جو صحاح و غیر صحاح، شیعہ اور سنی مصادر میں موجود ہیں۔

فاطمۃ بضعۃ منی

فمن اغضبھا اغضبنی

فاطمۃ بضعۃ منی

یریبنی ما ارابھا

یوذینی ما یوذیہا

فاطمۃ بضعۃ منی

من آذاھا فقد آذانی

فاطمۃ بضعۃ منی

من سرھا فقد سرنی

ومن ساء ھا فقد ساء نی

فاطمۃ بضعۃ منی

یسخطنی ما اسخطھا

۲۔ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ: یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ پرندے، حیوانات اور حشرات باہمی افہام و تفہیم کے لیے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ مختلف حالات میں مختلف آواز نکالتے اور مختلف انداز اختیار کرتے ہیں اور اللہ کا یہ فرمان بھی سب کے سامنے ہے:

وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمۡثَالُکُمۡ ۔۔۔ (۶ انعام: ۳۸)

اور زمین پر چلنے والے تمام جانور اور ہوا میں اپنے دو پروں سے اڑنے والے سارے پرندے بس تمہاری طرح کی امتیں ہیں۔

یہ بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان آوازوں میں سے ایک خاص ارتعاش کو سن سکتا ہے جو ۱۶ سے ۳۲ ہزار فی سیکنڈ کے درمیان ہو۔ اس سے کم یا زیادہ کو انسان نہیں سن سکتا۔

لہٰذا اللہ کے وہ رسول جو وحی کی لطیف آواز کو سن سکتے ہیں ان کے لیے پرندوں کی بولی سن اور سمجھ لینا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔

جو لوگ اس کی تاویل و توجیہ کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو فاعل مختار، ہر شیء پر قادر نہیں سمجھتے بلکہ وہ اللہ کو طبیعیاتی اشیاء کی طرح لیتے ہیں جن سے ان سے مربوط چیزیں صادر ہو سکتی ہیں۔ جیسے پانی سے رطوبت اور آگ سے حرارت اور بس

۳۔ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ: ہمیں ہر چیز عنایت ہو گئی ہے۔ کُلِّ شَیۡءٍ ہر چیز سے مراد ہر وہ نعمت ہے جس سے دنیا میں انسان بہرہ ور ہو سکتا ہے۔ چنانچہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعاتھی:

وَ ہَبۡ لِیۡ مُلۡکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِیۡ ۔۔۔۔۔ (۳۸ ص۳۵)

مجھے ایسی بادشاہی عطا کر جو میرے بعد کسی کے شایان شان نہ ہو۔

اہم نکات

۱۔ میراث کا قانون عام ہے۔ جہاں اس عام کی شمولیت نہیں ہوتی ہے اس کا شریعت میں ذکر ہے۔ جیسے کفر، قتل، عاق۔ ان میں نبوت کا ذکر نہیں ہے۔

۲۔ پرندے مربوط بولی بولتے ہیں جسے انبیاء علیہم السلام کی حسّ لطیف درک کر سکتی ہے۔


آیت 16