فَفَرَرۡتُ مِنۡکُمۡ لَمَّا خِفۡتُکُمۡ فَوَہَبَ لِیۡ رَبِّیۡ حُکۡمًا وَّ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔اسی لیے جب میں نے تم لوگوں سے خوف محسوس کیا تو میں نے تم سے گریز کیا پھر میرے رب نے مجھے حکمت عنایت فرمائی اور مجھے رسولوں میں سے قرار دیا۔

وَ تِلۡکَ نِعۡمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنۡ عَبَّدۡتَّ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۲۲﴾

۲۲۔ اور تم مجھ پر اس بات کا احسان جتاتے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا ہے؟ (یہ تو غلامی تھی احسان نہیں تھا)۔

18 تا22۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر دو اعتراض اٹھائے: اول یہ کہ ہم نے تجھے پالا پوسا ہے۔ دوم یہ کہ تو نے ہم کو اس کا صلہ یہ دیا کہ ہمارا بندہ تو نے قتل کیا۔

حضرت موسیٰ نے علیہ السلام جواب میں پہلی بات کے بارے میں کہا کہ وہ قتل عمد نہ تھا بلکہ ایک سہو تھا جو مجھ سے صادر ہوا۔ لیکن دوسری بات کا جواب دیتے ہوئے الزام خود فرعون پر عائد کیا کہ تیرے گھر میں پرورش پانے کی نوبت خود تیرے ظلم و ستم کی وجہ سے آئی کہ میری والدہ نے تیرے ہی خوف سے مجھے دریا میں ڈال دیا تھا، ورنہ میں اپنے ہی گھر میں پرورش پاتا۔

قَالَ فِرۡعَوۡنُ وَ مَا رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ؕ۲۳﴾

۲۳۔ فرعون نے کہا: اور رب العالمین کیا ہے؟

قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّوۡقِنِیۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ موسیٰ نے کہا : آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا رب، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔

قَالَ لِمَنۡ حَوۡلَہٗۤ اَلَا تَسۡتَمِعُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ فرعون نے اپنے اردگرد کے درباریوں سے کہا : کیا تم سنتے نہیں ہو؟

قَالَ رَبُّکُمۡ وَ رَبُّ اٰبَآئِکُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ موسیٰ نے کہا: وہ تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔

قَالَ اِنَّ رَسُوۡلَکُمُ الَّذِیۡۤ اُرۡسِلَ اِلَیۡکُمۡ لَمَجۡنُوۡنٌ﴿۲۷﴾

۲۷۔ فرعون نے (لوگوں سے)کہا: جو رسول تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ دیوانہ ہے۔

قَالَ رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ موسیٰ نے کہا: وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو۔

25 تا 28۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب فرعونیوں کے مسلمات کے خلاف تھا۔ انہوں نے اس سے پہلے کوئی ایسی بات کسی سے نہ سنی تھی اور رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ان کی ثقافت میں غیر مانوس لفظ تھا۔ چونکہ وہ عالمین کے لیے ایک نہیں، کئی ارباب کے قائل تھے۔ اس لیے فرعون نے تعجب سے پوچھا: وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ رب العالمین کیا ہوتا ہے؟ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رب العالمین کی تعریف کی کہ وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب کا رب ہے، تو یہ بھی ان کے لیے ایک اجنبی اور غیر معقول بات تھی۔ اس لیے تمسخر کے لہجے میں اپنے درباریوں سے کہا: سنتے ہو کہ یہ کیا نامعقول بات کہ رہا ہے؟ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مزید کہا: وہ رب تمہارے اور تمہارے آبا و اجداد کا رب ہے۔ یہ جملہ فرعون کی بادشاہت کی قانونی حیثیت کے خلاف ایک چیلنج تھا۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو اقتدار کے رب یعنی سورج کا نمائندہ سمجھتا تھا جس کو زمین میں اقتدار کا حق ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ کا رسول ہوں تو یہ اس کے اقتدار کے خلاف ایک چیلنج بن گیا۔ اس لیے اس نے کہا: اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود بنایا تو تجھے زندان میں ڈال دوں گا۔

قَالَ لَئِنِ اتَّخَذۡتَ اِلٰـہًا غَیۡرِیۡ لَاَجۡعَلَنَّکَ مِنَ الۡمَسۡجُوۡنِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ فرعون نے کہا: اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کو معبود بنایا تو میں تمہیں قیدیوں میں شامل کروں گا۔

29۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام لفظ رَبّ استعمال کرتے ہیں، فرعون جواب میں لفظ اِلٰہٌ معبود استعمال کرتا ہے۔ یہ اس لیے کہ رَبّ ہی معبود ہوتا ہے۔

قَالَ اَوَ لَوۡ جِئۡتُکَ بِشَیۡءٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۚ۳۰﴾

۳۰۔ موسیٰ نے کہا: اگر میں تیرے پاس واضح چیز (معجزہ) لے آؤں تو؟

30۔ اس بات سے فرعون کو پریشانی لاحق ہوئی۔ وہ سر عام اس چیلنج کو رد نہیں کر سکتا تھا۔