قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ ؕ اَلَا یَتَّقُوۡنَ ﴿۱۱﴾

۱۱۔ (یعنی) فرعون کی قوم کے پاس، کیا وہ ڈرتے نہیں؟

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ موسیٰ نے عرض کی: میرے رب! مجھے اس بات کا خوف ہے کہ وہ میری تکذیب کریں گے۔

وَ یَضِیۡقُ صَدۡرِیۡ وَ لَا یَنۡطَلِقُ لِسَانِیۡ فَاَرۡسِلۡ اِلٰی ہٰرُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے اور میری زبان نہیں چلتی سو تو ہارون کو (پیغام) بھیج (کہ میرا ساتھ دیں)۔

13۔ وَ یَضِیۡقُ صَدۡرِ ، زبان کی کندی، خوف تکذیب، وہ تین باتیں ہیں جن کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ شریک رسالت کرنے کی درخواست کی اور ساتھ اس واقعے کی طرف اشارہ کیا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آل فرعون کے ایک شخص کو قتل کیا تھا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ وہ مجھے دعوت دینے کا موقع ملنے سے پہلے ہی قتل کر دیں گے۔ اللہ نے فرمایا: آپ علیہ السلام کو کوئی خوف لاحق نہیں ہونا چاہیے۔ آپ علیہ السلام کو بچانے والی ذات مَعَکُمۡ آپ علیہ السلام کے ساتھ ہے اور آپ علیہ السلام کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہی ہے۔ یعنی آپ علیہ السلام اللہ کے تحفظ میں ہوں گے۔

وَ لَہُمۡ عَلَیَّ ذَنۡۢبٌ فَاَخَافُ اَنۡ یَّقۡتُلُوۡنِ ﴿ۚ۱۴﴾

۱۴۔ اور ان لوگوں کے لیے میرے ذمے ایک جرم (کا دعویٰ) بھی ہے لہٰذا مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔

قَالَ کَلَّا ۚ فَاذۡہَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَکُمۡ مُّسۡتَمِعُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ فرمایا: ہرگز نہیں! آپ دونوں ہماری نشانیاں لے کر جائیں کہ ہم آپ کے ساتھ سنتے رہیں گے۔

فَاۡتِیَا فِرۡعَوۡنَ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں اور (اس سے) کہیں: ہم رب العالمین کے رسول ہیں،

16۔ اِنَّا رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ: اِنَّا جمع اور رَسُوۡلُ مفرد! اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ چونکہ دونوں کی رسالت بھی ایک اور بھائی ہونے کی وجہ سے یک جان دو قالب تھے۔

اَنۡ اَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے ۔

17۔ فرعون نے بنی اسرائیل کو صدیوں تک غلام بنائے رکھا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بنیادی مقصد بنی اسرائیل کو فرعون کی اسارت سے نجات دلانا تھا۔

قَالَ اَلَمۡ نُرَبِّکَ فِیۡنَا وَلِیۡدًا وَّ لَبِثۡتَ فِیۡنَا مِنۡ عُمُرِکَ سِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ فرعون نے کہا: کیا ہم نے تجھے بچپن میں اپنے ہاں نہیں پالا؟ اور تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں بسر کیے۔

وَ فَعَلۡتَ فَعۡلَتَکَ الَّتِیۡ فَعَلۡتَ وَ اَنۡتَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور تو کر گیا اپنی وہ کرتوت جو کر گیا اور تو ناشکروں میں سے ہے۔

قَالَ فَعَلۡتُہَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ موسیٰ نے کہا: ہاں اس وقت وہ حرکت مجھ سے سرزد ہو گئی تھی اور میں خطاکاروں میں سے تھا۔