قَالَ رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ موسیٰ نے کہا: وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو۔

25 تا 28۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب فرعونیوں کے مسلمات کے خلاف تھا۔ انہوں نے اس سے پہلے کوئی ایسی بات کسی سے نہ سنی تھی اور رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ان کی ثقافت میں غیر مانوس لفظ تھا۔ چونکہ وہ عالمین کے لیے ایک نہیں، کئی ارباب کے قائل تھے۔ اس لیے فرعون نے تعجب سے پوچھا: وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ رب العالمین کیا ہوتا ہے؟ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رب العالمین کی تعریف کی کہ وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب کا رب ہے، تو یہ بھی ان کے لیے ایک اجنبی اور غیر معقول بات تھی۔ اس لیے تمسخر کے لہجے میں اپنے درباریوں سے کہا: سنتے ہو کہ یہ کیا نامعقول بات کہ رہا ہے؟ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مزید کہا: وہ رب تمہارے اور تمہارے آبا و اجداد کا رب ہے۔ یہ جملہ فرعون کی بادشاہت کی قانونی حیثیت کے خلاف ایک چیلنج تھا۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو اقتدار کے رب یعنی سورج کا نمائندہ سمجھتا تھا جس کو زمین میں اقتدار کا حق ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ کا رسول ہوں تو یہ اس کے اقتدار کے خلاف ایک چیلنج بن گیا۔ اس لیے اس نے کہا: اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود بنایا تو تجھے زندان میں ڈال دوں گا۔