وَ تِلۡکَ نِعۡمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنۡ عَبَّدۡتَّ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۲۲﴾

۲۲۔ اور تم مجھ پر اس بات کا احسان جتاتے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا ہے؟ (یہ تو غلامی تھی احسان نہیں تھا)۔

18 تا22۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر دو اعتراض اٹھائے: اول یہ کہ ہم نے تجھے پالا پوسا ہے۔ دوم یہ کہ تو نے ہم کو اس کا صلہ یہ دیا کہ ہمارا بندہ تو نے قتل کیا۔

حضرت موسیٰ نے علیہ السلام جواب میں پہلی بات کے بارے میں کہا کہ وہ قتل عمد نہ تھا بلکہ ایک سہو تھا جو مجھ سے صادر ہوا۔ لیکن دوسری بات کا جواب دیتے ہوئے الزام خود فرعون پر عائد کیا کہ تیرے گھر میں پرورش پانے کی نوبت خود تیرے ظلم و ستم کی وجہ سے آئی کہ میری والدہ نے تیرے ہی خوف سے مجھے دریا میں ڈال دیا تھا، ورنہ میں اپنے ہی گھر میں پرورش پاتا۔