قَالَ فَاۡتِ بِہٖۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ فرعون نے کہا: اگر تم سچے ہو تو اسے لے آؤ۔

فَاَلۡقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعۡبَانٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚۖ۳۲﴾

۳۲۔ پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ دفعتاً نمایاں اژدھا بن گیا۔

وَّ نَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ہِیَ بَیۡضَآءُ لِلنّٰظِرِیۡنَ﴿٪۳۳﴾

۳۳۔ اور (گریبان سے) اپنا ہاتھ نکالا تو وہ تمام ناظرین کے لیے چمک رہا تھا۔

قَالَ لِلۡمَلَاِ حَوۡلَہٗۤ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔فرعون نے اپنے گرد و پیش کے درباریوں سے کہا: یقینا یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے۔

یُّرِیۡدُ اَنۡ یُّخۡرِجَکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِکُمۡ بِسِحۡرِہٖ ٭ۖ فَمَا ذَا تَاۡمُرُوۡنَ ﴿۳۵﴾

۳۵۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال باہر کرے تو اب تم کیا مشورہ دیتے ہو؟

35۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو عظیم معجزے دیکھے تو فرعون بدحواس ہو گیا اور اپنی فرعونیت کے باوجود اپنے درباریوں کی طرف رجوع کیا۔ رعونت کو چھوڑ کر مشورہ طلب کیا۔ مشورہ یہ ملا کہ اس کے مقابلے میں جادو کرکے ہی اس معجزے کو باطل قرار دے سکتے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے یہ مطالبہ تھا کہ ہمیں مصر کی سرزمین سے نکلنے اور اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دو۔ فرعون یہ کہتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ہم کو مصر کی سرزمین سے نکالنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اس کائنات کا ایک ہی رب ہے، اس کا میں نمائندہ ہوں تو فرعون کی بادشاہت کی قانونی حیثیت ختم ہو جاتی، کیونکہ وہ اپنے آپ کو سورج دیوتا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے بادشاہ ہونے کا حقدار سمجھتا تھا اور سورج ان کے مذہب میں اقتدار کا رَبّ تھا۔

قَالُوۡۤا اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہُ وَ ابۡعَثۡ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ ﴿ۙ۳۶﴾

۳۶۔ وہ کہنے لگے : اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو اور شہروں میں ہرکارے بھیج دو

یَاۡتُوۡکَ بِکُلِّ سَحَّارٍ عَلِیۡمٍ﴿۳۷﴾

۳۷۔ کہ وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لے آئیں ۔

فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیۡقَاتِ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ چنانچہ مقررہ دن کے مقررہ وقت پر جادوگر جمع کر لیے گئے ۔

38۔ مقررہ دن سے مراد فرعونیوں کے تہوار کا دن تھا۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اتفاق سے وہ دن نوروز اور شنبہ کا دن تھا۔ (تفسیر مظہری) بنا بر صحت روایت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فتح کا دن نوروز کا دن تھا۔

وَّ قِیۡلَ لِلنَّاسِ ہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّجۡتَمِعُوۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہو جاؤ گے؟

39۔ اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے جذبات کو کس طرح ابھارا گیا ہو گا اور سرکاری اعلان عام اور پروپیگنڈا کے ذریعے اس روز کو عظیم سے عظیم تر بنانے کی کوشش کی گئی ہو گی، کیونکہ ان کے زعم میں یہ روز ان کی فتح کا روز تھا۔

لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ اِنۡ کَانُوۡا ہُمُ الۡغٰلِبِیۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ شاید ہم جادوگروں کے پیچھے چلیں اگر یہ لوگ غالب رہیں ۔