وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی یکطرفہ بندگی کرتا ہے، اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو منہ کے بل الٹ جاتا ہے، اس نے دنیا میں بھی خسارہ اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی کھلا نقصان ہے۔

11۔ یک طرفہ بندگی۔ یعنی صرف ایک صورت میں بندگی کرتے ہیں۔ وہ آسودگی کی صورت ہے کہ اگر نعمتیں فراواں ہو جائیں، دین کی طرف سے آسائشیں مل جائیں تو دینداری کرتے ہیں۔ فی الواقع وہ اپنی دنیا کے لیے دینداری کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر دینداری میں اس کو دنیا نہ ملے اور قربانی دینا پڑے تو فوراً منقلب ہو جاتے ہیں اور دینداری چھوڑ دیتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کا انجام یہ ہو گا: نہ دنیا ملی، نہ دین ہاتھ میں رہا۔ دونوں جہانوں کا خسارہ اٹھایا۔

یَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہٗ وَ مَا لَا یَنۡفَعُہٗ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِیۡدُ ﴿ۚ۱۲﴾

۱۲۔ یہ اللہ کے سوا ایسی چیز کو پکارتا ہے جو اسے نہ ضرر دے سکتی ہے اور نہ اسے فائدہ دے سکتی ہے، یہی تو بڑی کھلی گمراہی ہے۔

12۔ 13 پہلی آیت میں فرمایا: ان کے معبود نہ ضرر دے سکتے ہیں نہ فائدہ۔ دوسری آیت میں فرمایا: ان کا ضرر فائدہ سے زیادہ قریب ہے۔ یعنی ضرر زیادہ ہے۔ جواب یہ ہے کہ خود بے جان بت نہ ضرر دے سکتے ہیں نہ فائدہ۔ ان دونوں باتوں کی ان میں صلاحیت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری آیت کا مطمح نظر یہ ہے کہ خود بتوں سے قطع نظر، بتوں کی پرستش میں ضرر ہے۔ لہٰذا پہلی آیت کی نظر خود بتوں کی طرف ہے۔ دوسری آیت کی نظر پرستش کی طرف ہے۔

یَدۡعُوۡا لَمَنۡ ضَرُّہٗۤ اَقۡرَبُ مِنۡ نَّفۡعِہٖ ؕ لَبِئۡسَ الۡمَوۡلٰی وَ لَبِئۡسَ الۡعَشِیۡرُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ وہ ایسی چیز کو پکارتا ہے جس کا ضرر اس کے فائدے سے زیادہ قریب ہے، کتنا برا ہے اس کا سرپرست اور اس کا رفیق بھی کتنا برا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یُدۡخِلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یُرِیۡدُ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اللہ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو یقینا ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اللہ جس چیز کا ارادہ کر لیتا ہے اسے یقینا کر گزرتا ہے۔

مَنۡ کَانَ یَظُنُّ اَنۡ لَّنۡ یَّنۡصُرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ فَلۡیَمۡدُدۡ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآءِ ثُمَّ لۡیَقۡطَعۡ فَلۡیَنۡظُرۡ ہَلۡ یُذۡہِبَنَّ کَیۡدُہٗ مَا یَغِیۡظُ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جو یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ دنیا و آخرت میں رسول کی مدد نہیں کرے گا (اب رسول کی کامیابی سے تنگ ہے) تو اسے چاہیے کہ ایک رسی اوپر کی طرف باندھے پھر اپنا گلا گھونٹ لے پھر دیکھے کہ کیا اس کا یہ حربہ اس کے غصے کو دور کر دیتا ہے؟

15۔ یَّنۡصُرَہُ کی ضمیر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جاتی ہے تو اس آیت کا مطلب وہی بنتا ہے جو ترجمے میں اختیار کیا گیا اور اگر یہ ضمیر مَنۡ کی طرف جاتی ہے تو مطلب یہ بنتا ہے: جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ اس کی مدد نہیں کرے گا وہ اپنے آپ کے ساتھ جو چاہے کرے، یہاں تک کہ اگر رسی کے ساتھ لٹک کر خود کشی کرے تو کیا اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا؟

وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یُّرِیۡدُ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور اسی طرح ہم نے قرآن کو واضح آیات کی صورت میں نازل کیا اور اللہ جس کے لیے ارادہ کرتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِئِیۡنَ وَ النَّصٰرٰی وَ الۡمَجُوۡسَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا ٭ۖ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡصِلُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ یقینا ایمان لانے والوں، یہودیوں، صابیوں، نصرانیوں، مجوسیوں اور مشرکوں کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

17۔ ایمان والوں سے مراد مسلمان ہیں۔ ہَادُوۡا سے مراد یہود ہیں، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے تابع ہیں۔ ان کی کتاب توریت ہے۔ بخت نصر بابل کے بادشاہ نے یہود پر فتح حاصل کی اور توریت کو جلا دیا۔ بعد میں از روئے حفظ ایک نئی توریت بنا لی گئی۔ نصاریٰ حضرت مسیح کے پیروکاروں کو کہتے ہیں۔ صابِئِیۡنَ کا مذہب حضرت یحییٰ علیہ السلام سے منسوب ہے۔ مجوس یعنی ذرتشت کے ماننے والے۔ ان کی مقدس کتاب کو اوسنا کہتے ہیں۔ عناصر کو تقدس دیتے ہیں، خصوصاً آتش کو۔ وہ روشنی اور تاریکی دو خداؤں کو مانتے ہیں۔ مشرکین سے مراد غیر اہل کتاب مشرک ہیں۔ اگر چہ بعض اہل کتاب شرک میں ملوث ہیں۔

ان مختلف ادیان کے درمیان دنیا میں فیصلہ نہیں ہو گا۔ ان میں سے کون حق پر ہے اور کون ناحق ہے، اس کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسۡجُدُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ وَ النُّجُوۡمُ وَ الۡجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ کَثِیۡرٌ مِّنَ النَّاسِ ؕ وَ کَثِیۡرٌ حَقَّ عَلَیۡہِ الۡعَذَابُ ؕ وَ مَنۡ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ مُّکۡرِمٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ﴿ؕٛ۱۸﴾۩

۱۸۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے نیز سورج، چاند، ستارے،پہاڑ ، درخت، جانور اور بہت سے انسان اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ جن پر عذاب حتمی ہو گیا ہے اور جسے اللہ خوار کرے اسے عزت دینے والا کوئی نہیں، یقینا اللہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔

18۔ یعنی کائنات میں موجود تمام مخلوقات خواہ انسانوں کی طرح صاحب عقل ہوں یا جمادات و نباتات کی طرح بے عقل ہوں، اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ اس کارواں میں پوری کائنات شامل ہے اور تمام موجودات اپنے خالق کے حضور سجدہ ریز ہیں، سوائے اس انسان کے۔ یہاں انسانوں میں بہت سے لوگ اس قافلے میں شامل نہیں ہیں۔ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ۔ (احزاب: 72)

ہٰذٰنِ خَصۡمٰنِ اخۡتَصَمُوۡا فِیۡ رَبِّہِمۡ ۫ فَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا قُطِّعَتۡ لَہُمۡ ثِیَابٌ مِّنۡ نَّارٍ ؕ یُصَبُّ مِنۡ فَوۡقِ رُءُوۡسِہِمُ الۡحَمِیۡمُ ﴿ۚ۱۹﴾

۱۹۔ ان دونوں فریقوں نے اپنے رب کے بارے میں اختلاف کیا ہے ، پس جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے آتشیں لباس آمادہ ہے، ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔

19۔ دونوں فریق ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آراء ہیں۔ حق اور باطل ایمان اور کفر پوری انسانیت کی تاریخ میں برسرپیکار ہیں۔ اگرچہ باطل کی شاخیں بے شمار ہیں، تاہم سب اہل باطل اپنے کفر میں متحد ہیں: الکفر ملۃ واحدۃ۔

تفسیر در منثور میں آیا ہے کہ یہ آیت بدر کے اسلامی مجاہدین حمزہ و عبیدہ بن حارث اور علی علیہ السلام نیز کفار کے عتبہ و شیبہ اور ولید بن عتبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ بات صحاح میں منقول ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انا اول من یجثو بین یدی الرحمن للخصومۃ یوم القیامۃ ۔ (صحیح بخاری 9: 374 ح 4626، بحار الانوار 19: 312) میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو حق طلبی کے لیے قیامت کے روز اللہ کے سامنے دو زانو ہو گا۔

یُصۡہَرُ بِہٖ مَا فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ وَ الۡجُلُوۡدُ ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ جس سے ان کے پیٹ میں جو کچھ ہے اور کھالیں گل جائیں گے۔