آیت 17
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِئِیۡنَ وَ النَّصٰرٰی وَ الۡمَجُوۡسَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا ٭ۖ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡصِلُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ یقینا ایمان لانے والوں، یہودیوں، صابیوں، نصرانیوں، مجوسیوں اور مشرکوں کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

تفسیر آیات

لوگوں کا مذہبی رشتہ خواہ کسی بھی مذہب سے ہو۔ یہود، صابئی ، نصاریٰ ہو یا مجوس، حتیٰ خود مشرکین میں سے ہی کیوں نہ ہو، ان کے درمیان انتہائی فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔ اگرچہ دنیا میں بھی اللہ نے فیصلہ سنا دیا ہے لیکن اس دنیوی فیصلے کو یہ لوگ تسلیم نہیں کرتے۔ آخرت میں جو فیصلہ ہو گا اس میں تسلیم، عدم تسلیم کا سوال نہیں اٹھے گا۔

صابئی: حضرت یحییٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کو کہتے ہیں جو مسیحی مذہب کی ایک شاخ ہے۔ اس لیے صابئی کو بھی اہل کتاب سمجھا جاتا ہے۔

الۡمَجُوۡسَ: قرآن میں صرف ایک بار مذکور ہے۔ مجوس کو بھی اہل کتاب میں شمار کیا گیا ہے اور مشرکین میں شامل نہیں کیا گیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے مجوسی مذہب بھی ایک توحیدی مذہب تھا۔ بعد میں انحرافات کی وجہ سے دو خدا، یزدان و اھریمن اور آتش پرستی اس مذہب میں داخل ہوئی ہے۔ شروع میں اس کا توحیدی مذہب ہونا یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے مجوس سے بھی جزیہ لیا ہے اور جزیہ توحیدی مذاہب سے لیا جاتا ہے۔ اس مذہب کا پیشوا زرتشت ہے اور ان کی مقدس کتاب کا نام اوستا ہے۔ کہتے ہیں اسکندر کے حملے میں اوستا نابود ہوگئی تھی، بعد میں ساسانیوں کے زمانے میں دوبارہ لکھی گئی، جیسے توریت کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا۔ اصل توریت تلف ہونے کے ایک مدت بعد دوبارہ لکھی گئی۔ لہٰذا اصل مذہب کا چہرہ ان کتابوں سے پہچانا نہیں جاتا۔


آیت 17