آیت 11
 

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی یکطرفہ بندگی کرتا ہے، اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو منہ کے بل الٹ جاتا ہے، اس نے دنیا میں بھی خسارہ اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی کھلا نقصان ہے۔

تشریح کلمات

حَرۡفٍ:

( ح ر ف ) کے معنی کسی چیز کے کنارے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ: لوگوں میں ایسا بھی ہے جو یک طرفہ دینداری کرتا ہے کہ ایک پاؤں دین کے پلڑے میں رکھتا ہے۔ صرف ایک صورت میں دین کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کا دین اس کے مفاد کے تابع ہو۔ وہ دین، دنیا کے لیے اختیار کرتا ہے۔ ہر صورت اور ہر حالت میں دین نہیں چاہتا۔ اس کا دین بازار کی اجناس کی طرح ہے یا ایسے کنارے پر بیٹھا ہے کہ معمولی ٹھوکر سے کھائی میں گر جاتا ہے۔

۲۔ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ: اگر مفاد حاصل ہو گیا اور دوہنے کا موقع ہاتھ آگیا تو دونوں قدم دین کی طرف رکھ دیتا اور بڑھ چڑھ کر دیندار بن جاتا ہے۔

۳۔ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ: اگر کسی آزمائش سے دوچار ہو جائے تو یکسر بدل جاتا ہے۔ وہ نہایت کنارے پر کھڑاتھا، معمولی جنبش سے اتھاہ گہرائی میں منہ کے بل گر جاتا ہے۔

۴۔ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ: جس حادثے سے دوچار ہوا تھا اس سے اس کی دنیا بھی چلی گئی اور دین سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ دونوں جہاں میں گھاٹا، نہایت خسارہ اٹھانے والا ہے جو ہر شخص کو محسوس ہو گا۔

مؤمن کی زندگی میں عقیدہ چٹان کی طرح مضبوط ہوتا ہے کہ تند وتیز آندھی سے بھی اس میں جنبش نہیں آتی اور دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے یہ اپنے موقف سے ذرہ برابر نہیں ہٹتا۔

مؤمن کے عقیدے کی جڑیں دنیوی مفادات میں نہیں پھیلتیں بلکہ وہ دنیوی مفادات کو دین کی جڑیں مضبوط کرنے پر لگا دیتا ہے۔ وہ دین کے لیے دنیا آباد کرتا ہے۔ اس کے لیے دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ الدنیا مزرعۃ الآخرۃ ۔ ( حدیث ۔ عوالی اللالی ۱: ۲۶۷۔) دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ دینداری برائے دنیا داری دونوں جہاں میں خسارے کا باعث ہے۔


آیت 11