وَ لَہُمۡ مَّقَامِعُ مِنۡ حَدِیۡدٍ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور ان (کو مارنے) کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے۔

کُلَّمَاۤ اَرَادُوۡۤا اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنۡہَا مِنۡ غَمٍّ اُعِیۡدُوۡا فِیۡہَا ٭ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ جب وہ رنج کی وجہ سے جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر اسی میں پلٹا دیے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو۔

اِنَّ اللّٰہَ یُدۡخِلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّ لُؤۡلُؤًا ؕ وَ لِبَاسُہُمۡ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ﴿۲۳﴾

۲۳۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ یقینا انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے ان کی آرائش کی جائے گی اور ان جنتوں میں ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔

23۔ یعنی جنت میں دنیاوی تصورات کے مطابق شاہانہ زندگی ہو گی۔ چنانچہ سونے کے کنگن بادشاہوں کے استعمال میں ہوتے تھے۔

وَ ہُدُوۡۤا اِلٰی الطَّیِّبِ مِنَ الۡقَوۡلِ ۚۖ وَ ہُدُوۡۤا اِلَی صِرَاطِ الۡحَمِیۡدِ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور انہیں پاکیزہ گفتار کی طرف ہدایت دی گئی اور انہیں لائق ستائش (خدا) کی راہ دکھائی گئی ہے۔

24۔ پاکیزہ باطن سے ہی پاکیزہ گفتار وجود میں آتی ہے۔ آخرت میں اہل جنت کے باطن پاکیزہ ہوں گے، گفتار بھی پاکیزہ ہو گی۔ چنانچہ دنیا میں پاکیزہ ہستیوں کے پاکیزہ کلام ہمارے لیے رہنما اصول ہوتے ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ الَّذِیۡ جَعَلۡنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآءَۨ الۡعَاکِفُ فِیۡہِ وَ الۡبَادِ ؕ وَ مَنۡ یُّرِدۡ فِیۡہِ بِاِلۡحَادٍۭ بِظُلۡمٍ نُّذِقۡہُ مِنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿٪۲۵﴾

۲۵۔جو لوگ کافر ہوئے اور راہ خدا میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور اس مسجد الحرام کی راہ میں بھی جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے اور جس میں مقامی لوگ اور باہر سے آنے والے سب برابر ہیں اور جو اس میں زیادتی کے ساتھ کجروی کا ارادہ کرے اسے ہم ایک دردناک عذاب چکھائیں گے۔

25۔ مسجد الحرام تمام مسلمانوں کے لیے وقف ہے۔ اس میں عبادت سے منع کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ اس حق میں مقامی باشندے اور دیگر علاقوں سے آنے والے سب برابر ہیں۔

وَ اِذۡ بَوَّاۡنَا لِاِبۡرٰہِیۡمَ مَکَانَ الۡبَیۡتِ اَنۡ لَّا تُشۡرِکۡ بِیۡ شَیۡئًا وَّ طَہِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡقَآئِمِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کو مستقر بنایا (اور آگاہ کیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔

26۔ یعنی اسی شریعت اور قانون کو رواج دو جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کی جا سکے، جس میں شرک کا شائبہ نہ ہو اور ساتھ ہی اس عبادت کے اہم ارکان کا ذکر فرمایا جو طواف، قیام، رکوع اور سجود سے عبارت ہیں۔

وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔

27۔ وَ اَذِّنۡ : بیت اللہ کی تطہیر کے حکم کے بعد لوگوں میں حج کے اعلان کا حکم دیا جا رہا ہے۔ مخاطب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم مل رہا ہے کہ حج کا آغاز کرو۔ اس کے بعد اس اعلان ابراہیمی کے اثرات بیان فرمائے کہ لوگ قیامت تک پیدل چل کر کمزور اونٹوں تک کے ذریعے سفر طے کر کے آپ کی آواز پر لبیک کہیں گے۔ چنانچہ آج حج میں لاکھوں کا مجمع اسی اذان ابراہیمی کے نتیجے میں ہے۔

لِّیَشۡہَدُوۡا مَنَافِعَ لَہُمۡ وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ۚ فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ ﴿۫۲۸﴾

۲۸۔ تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کیے ہیں، پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلوک الحال ضرورتمندوں کو بھی کھلاؤ۔

28۔ اطراف عالم سے جمع ہونے والے حجاج ان روحانی و مادی فوائد کا مشاہدہ کرتے ہیں جن سے ان کے دین اور دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں آکر حاجی اس انسان ساز تاریخ کے مختلف ادوار کی یادگاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں جن سے اس تاریخ کے بانی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اور ہاجرہ گزرے ہیں۔ بے آب و گیاہ بیابان میں بچوں کا چھوڑنا، پانی کی تلاش میں حضرت ہاجرہ کا پریشان حال ہونا، بیٹے کو قربانی کے لیے اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا، اسلامی تاریخ میں بت شکن کے وارث کی بت شکنی، فتح مکہ، تعمیر بیت اللہ وغیرہ۔

دنیوی فوائد کے اعتبار سے حج کرنے سے مالی وسعت آ جاتی ہے۔ ایک اسلامی اجتماع میں شرکت سے فکری وسعت اور سوچ میں آفاقیت آ جاتی ہے۔ اسلامی ثقافت اور تجارت میں فروغ سے دنیاوی مفادات حاصل ہو جاتے ہیں۔

ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ﴿۲۹﴾

۲۹۔ پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔

29۔ دوران حج کی پابندیاں قربانی کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔ آپ احرام کھول لیں، حجامت کرائیں، نہا دھو کر میل کچیل دور کریں۔ صرف عورتیں ابھی حرام ہیں۔ طواف النسآء کے بعد عورتیں بھی حلال ہو جائیں گی۔

وَ لۡیُوۡفُوۡا :طواف کریں۔ اس طواف سے طواف الزیارۃ مراد لیا جاتا ہے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک اس طواف سے مراد طواف نساء ہے 1 ؎ جو طواف الزیارۃ کے بعد بجا لایا جاتا ہے، فقہ جعفریہ کے مطابق طواف نساء سے پہلے عورتیں حلال نہیں ہوتیں۔(1 ؎ الکافی 4 :513 باب طواف النسآء)

ذٰلِکَ ٭ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ وَ اُحِلَّتۡ لَکُمُ الۡاَنۡعَامُ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔بات یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کی عظمت کا پاس کرے تو اس کے رب کے نزدیک اس میں اس کی بہتری ہے اور تم لوگوں کے لیے مویشی حلال کر دیے گئے ہیں سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں بتایا جائے گا، پس تم لوگ بتوں کی پلیدی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔