آیات 19 - 22
 

ہٰذٰنِ خَصۡمٰنِ اخۡتَصَمُوۡا فِیۡ رَبِّہِمۡ ۫ فَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا قُطِّعَتۡ لَہُمۡ ثِیَابٌ مِّنۡ نَّارٍ ؕ یُصَبُّ مِنۡ فَوۡقِ رُءُوۡسِہِمُ الۡحَمِیۡمُ ﴿ۚ۱۹﴾

۱۹۔ ان دونوں فریقوں نے اپنے رب کے بارے میں اختلاف کیا ہے ، پس جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے آتشیں لباس آمادہ ہے، ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔

یُصۡہَرُ بِہٖ مَا فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ وَ الۡجُلُوۡدُ ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ جس سے ان کے پیٹ میں جو کچھ ہے اور کھالیں گل جائیں گے۔

وَ لَہُمۡ مَّقَامِعُ مِنۡ حَدِیۡدٍ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور ان (کو مارنے) کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے۔

کُلَّمَاۤ اَرَادُوۡۤا اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنۡہَا مِنۡ غَمٍّ اُعِیۡدُوۡا فِیۡہَا ٭ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ جب وہ رنج کی وجہ سے جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر اسی میں پلٹا دیے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو۔

تفسیر آیات

۱۔ ہٰذٰنِ خَصۡمٰنِ: دو فریقوں کا آپس میں نزاع ہے۔ موضوع نزاع فِیۡ رَبِّہِمۡ ان کا اپنا رب ہے۔

ایک فریق کا موقف یہ ہے کہ اس کا رب وہی ہے جو اس کا خالق ہے۔ وہ کائنات کا جیسے خالق ہے ویسے رب بھی ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ یہ فریق مؤمنین پر مشتمل ہے۔

دوسرے فریق کا موقف یہ ہے کہ خالق اور ہے رب اور ہے۔ رب ایک نہیں کئی ایک ہیں۔ اس کی اولاد یعنی بیٹیاں ہیں۔ یہ فریق کافروں پر مشتمل ہے۔

تقریباً تمام مفسرین کے مطابق یہ آیت یوم بدر میں حضرت حمزہؓ، حضرت علی علیہ السلام اور حضرت عبیدہؓ کی شان میں نازل ہوئی جب یہ حضرات عتبہ، شیبہ اور ولید کے مقابلے میں لڑ رہے تھے۔

جب یہ آیت نازل ہو رہی تھی تو مؤمنین کی نمائندگی حضرت حمزہؓ، حضرت علی علیہ السلام اور حضرت عبیدۃ بن حارث رضوان اللہ علیہ کر رہے تھے۔ میدان جنگ میں کھڑے تھے۔ ان کے مقابلے میں کافروں کی طرف سے شیبہ، عتبہ اور ولید نمائندگی کرتے ہوئے میدان جنگ میں کھڑے تھے۔ چنانچہ عبیدہؓ کے مقابلے میں عتبہ آیا، حمزہؓ کے مقابلے میں شیبہ آیا اور حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے میں ولید آیا۔ چنانچہ حمزہؓ نے شیبہ کو موقع ہی نہیں دیا اور اسے قتل کر دیا، حضرت علی علیہ السلام نے ولید کو مہلت نہ دی اور قتل کر دیا مگر عبیدہ اور عتبہ میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کو زخمی کر دیا۔ اتنے میں حمزہؓ اور علی علیہ السلام نے بھی عتبہ پر حملہ کر دیا اور اسے فی النار کر دیا۔

اس آیت کے حضرت علی علیہ السلام، حضرت حمزہؓ اور حضرت عبیدہؓ کی شان میں نازل ہونے پر دلالت کرنے والی روایت تقریباً تمام مصادر میں ہے۔ الدرالمنثور میں آیت کے ذیل لکھا ہے: اس روایت کو مسلم، بخاری، ترمذی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن المنذر، ابوحاتم، ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت ابوذرؓ سے نقل کیا ہے۔

خصومت علی علیہ السلام: حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ بہت سے لوگوں کو خصومت رہی ہے۔ رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں مشرکین کے ساتھ خصومت میں آپؑ سب سے آگے تھے اور عہد رسالت کے بعد بھی آپ کی زندگی پر ازخصومت تھی خصوصاً اپنے عہد خلافت میں۔ مروی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

الدَّھْرُ اَنْزَلَنِی حَتَّی یُقَالُ عِلِّی وَ مُعَاوِیَۃُ ۔ ( مفتاح السعادۃ فی شرح نہج البلاغۃ محمد تقی النقوی الخراسانی ج ۳: ۵۲۲۔ الامثال و الحکم المستخرجۃ من نہج البلاغۃ محمد الغروی ص ۵۴۳)

زمانے نے مجھے اس قدر گرایا یہاں تک کہا کہ جانے لگا علی اور معاویہ۔

روایت ہے کہ انہی خصومتوں کی وجہ سے آپ ؑنے فرمایا:

انا اول من یجثو بین یدی الرحمن للخصومۃ یوم القیمۃ ۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری حدیث نمبر۴۶۲۶۔ شواھد التنزیل ۱: ۵۰۳۔ دیگر مصادر کے لیے ملاحظہ ہو الدرالمنشور اسی آیت کے ذیل میں۔)

قیامت کے روز سب سے پہلے مقدمہ پیش کرنے کے لیے میں اللہ کے سامنے دو زانو ہوں گا۔

۲۔ فَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا قُطِّعَتۡ لَہُمۡ ثِیَابٌ مِّنۡ نَّارٍ: فریق کفر کے انجام کا ذکر ہے کہ ان کو جہنم میں آتشیں لباس پہنایا جائے گا۔ ان پر آتش کا اس طرح احاطہ ہو گا جس طرح لباس کا احاطہ ہوتا ہے۔

۳۔ یُصَبُّ مِنۡ فَوۡقِ رُءُوۡسِہِمُ الۡحَمِیۡمُ: کھولتا ہوا پانی ان کے سروں پر ڈالا جائے گا جس سے ان کی کھال اور پیٹ میں موجود اعضا سمیت ہر چیز گل جائے گی۔

۴۔ وَ لَہُمۡ مَّقَامِعُ مِنۡ حَدِیۡدٍ: لوہے کے گرز سے بھی انہیں عذاب دیا جائے گا۔ ہر قسم، ہر صورت کا عذاب ان کے لیے ہو گا۔

۵۔ کُلَّمَاۤ اَرَادُوۡۤا اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا: یہ بات بھی عذاب میں شامل ہوگی کہ انہیں یہ واہمہ لگا رہے گا کہ ہم یہاں سے نکل سکتے ہیں لہٰذا وہ نکلنے کی کوشش کریں گے۔ پھر جب ان کو دوبارہ آتش میں واپس کر دیا جائے گا تو ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا ورنہ اگر نکلنے کی کوئی امید نہ ہوتی تو نکلنے کی کوشش کرتے نہ ان کی امیدیں ٹوٹ جاتیں۔


آیات 19 - 22