کامیابی اور خسارے کا سبب


وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی یکطرفہ بندگی کرتا ہے، اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو منہ کے بل الٹ جاتا ہے، اس نے دنیا میں بھی خسارہ اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی کھلا نقصان ہے۔

11۔ یک طرفہ بندگی۔ یعنی صرف ایک صورت میں بندگی کرتے ہیں۔ وہ آسودگی کی صورت ہے کہ اگر نعمتیں فراواں ہو جائیں، دین کی طرف سے آسائشیں مل جائیں تو دینداری کرتے ہیں۔ فی الواقع وہ اپنی دنیا کے لیے دینداری کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر دینداری میں اس کو دنیا نہ ملے اور قربانی دینا پڑے تو فوراً منقلب ہو جاتے ہیں اور دینداری چھوڑ دیتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کا انجام یہ ہو گا: نہ دنیا ملی، نہ دین ہاتھ میں رہا۔ دونوں جہانوں کا خسارہ اٹھایا۔