وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ عَاصِفَۃً تَجۡرِیۡ بِاَمۡرِہٖۤ اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ کُنَّا بِکُلِّ شَیۡءٍ عٰلِمِیۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور سلیمان کے لیے تیز ہوا کو (مسخر کیا) جو ان کے حکم سے اس سرزمین تک چلتی تھی جسے ہم نے بابرکت بنایا تھا اور ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے ہیں۔

81۔ ممکن ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے تسخیر ہوا، جہاز رانی میں ہوئی ہو، کیونکہ اس زمانے میں بحری جہاز کا انحصار صرف ہوا پر تھا اور ممکن ہے کہ وہ دوش ہوا پر سفر کرتے ہوں۔

وَ مِنَ الشَّیٰطِیۡنِ مَنۡ یَّغُوۡصُوۡنَ لَہٗ وَ یَعۡمَلُوۡنَ عَمَلًا دُوۡنَ ذٰلِکَ ۚ وَ کُنَّا لَہُمۡ حٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۸۲﴾

۸۲۔ اور شیاطین میں سے کچھ (کو مسخر بنایا) جو ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور اس کے علاوہ دیگر کام بھی کرتے تھے اور ہم ان سب کی نگہبانی کرتے تھے۔

82۔ تسخیر جنات کی طرف اشارہ ہے۔ شیاطین کو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کرنے کے بعد ان شیطانوں کی نگہبانی خود خداوند عالم کرتا تھا کہ وہ حضرت علیہ السلام کے حسب منشا کام کریں، سرکشی اور فساد پیدا نہ کریں۔

وَ اَیُّوۡبَ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۳﴾

۸۳۔ اور ایوب کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: مجھے (بیماری سے) تکلیف ہو رہی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔

83۔ حضرت ایوب علیہ السلام بنی اسرائیل کے ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ آپ علیہ السلام تقریباً نویں صدی قبل مسیح میں مبعوث ہوئے۔ آپ کو مال و اولاد اور بیماری کی کڑی آزمائشوں سے گزارا گیا اور آپ صابر و شاکر ثابت ہوئے۔

فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَکَشَفۡنَا مَا بِہٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّ اٰتَیۡنٰہُ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ ذِکۡرٰی لِلۡعٰبِدِیۡنَ ﴿۸۴﴾

۸۴۔ تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی تکلیف ان سے دور کر دی اور انہیں ان کے اہل و عیال عطا کیے اور اپنی رحمت سے ان کے ساتھ اتنے مزید بھی جو عبادت گزاروں کے لیے ایک نصیحت ہے۔

وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِدۡرِیۡسَ وَ ذَاالۡکِفۡلِ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۵﴾

۸۵۔ اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔

85۔ حضرت ذوالکفل کے بارے میں قدیم و جدید مورخین و مفسرین میں اختلاف ہے کہ یہ پیغمبر کون ہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ حزقیل پیغمبر ہیں جن کا ذکر بائبل میں صحیفہ حزقی ایل میں ملتا ہے۔ ہماری روایات میں آیا ہے کہ حضرت ذوالکفل علیہ السلام حضرت سلیمان کے بعد مبعوث ہوئے۔

وَ اَدۡخَلۡنٰہُمۡ فِیۡ رَحۡمَتِنَا ؕ اِنَّہُمۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کیا، یقینا یہ صالحین میں سے تھے ۔

وَ ذَاالنُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۷﴾

۸۷۔ اور ذوالنون کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) جب وہ غصے میں چل دیے اور خیال کرنے لگے کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے، چنانچہ وہ اندھیروں میں پکارنے لگے : تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ہی زیادتی کرنے والوں میں سے ہوں۔

87۔ ذوالنون حضرت یونس علیہ السلام کا لقب ہے۔ یعنی مچھلی والے، وہ اپنی قوم کی نافرمانی کی وجہ سے قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے۔ ان کو مچھلی نے نگل لیا۔ اللہ نے ان کو نجات دی۔ یہ نجات کوتاہی کے اعتراف اور تسبیح کی وجہ سے دے دی گئی۔ پھر تمام اہل ایمان کے لیے نوید سنائی کہ ان کو بھی اسی طرح غم سے نجات مل جایا کرے گی۔ اگر مومن، یونس علیہ السلام کی طرح صدق دل سے اللہ کو پکارے تو اللہ بھی اس کو اسی طرح نجات دے گا جس طرح یونس علیہ السلام کو نجات دی ہے۔

فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ ۙ وَ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الۡغَمِّ ؕ وَ کَذٰلِکَ نُــۨۡجِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ پھر ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ہم نے انہیں غم سے نجات دی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیتے ہیں۔

وَ زَکَرِیَّاۤ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ رَبِّ لَا تَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا وَّ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡوٰرِثِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۹﴾

۸۹۔ اور زکریا کو بھی (رحمتوں سے نوازا) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: میرے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو بہترین وارث ہے۔

89۔ تنہا نہ چھوڑ یعنی بے اولاد نہ چھوڑ۔

فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ ۫ وَ وَہَبۡنَا لَہٗ یَحۡیٰی وَ اَصۡلَحۡنَا لَہٗ زَوۡجَہٗ ؕاِنَّہُمۡ کَانُوۡا یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَ یَدۡعُوۡنَنَا رَغَبًا وَّ رَہَبًا ؕوَ کَانُوۡا لَنَا خٰشِعِیۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحییٰ عطا کیے اور ان کی بیوی کو ان کے لیے نیک بنا دیا، یہ لوگ کارہائے خیر میں سبقت کرتے تھے اور شوق و خوف (دونوں حالتوں) میں ہمیں پکارتے تھے اور ہمارے لیے خشوع کرنے والے تھے۔

90۔ اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے کے دو سبب ہوتے ہیں: اس کی خوشنودی کا شوق اور اس کی ناراضی کا خوف۔ خوف و امید کے درمیان میں رہ کر ہی بندگی کرنا مستحسن ہے۔