آیت 81
 

وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ عَاصِفَۃً تَجۡرِیۡ بِاَمۡرِہٖۤ اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ کُنَّا بِکُلِّ شَیۡءٍ عٰلِمِیۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور سلیمان کے لیے تیز ہوا کو (مسخر کیا) جو ان کے حکم سے اس سرزمین تک چلتی تھی جسے ہم نے بابرکت بنایا تھا اور ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ: تیز ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیا تھا۔ اس کی دو طرح کی تشریح ہو سکتی ہے۔ پہلی تشریح یہ کہ بحری جہازوں کی آمد و رفت کے لیے موافق ہوائیں چلائی ہوں۔ چنانچہ اس زمانے میں جہاز رانی کے لیے ہوا واحد ذریعہ تھی۔ فلسطین سے دیگر ممالک کی طرف اور بحر روم سے مغربی ممالک کی طرف تجارتی جہاز ہوا ہی کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ تسخیر کا یہ مطلب لیا جائے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تجارتی جہاز جو مغربی اور جنوبی مشرقی علاقوں میں چلتے تھے ان کے لیے موافق ہوا ملا کرتی تھی، یہ تشریح قابل ترجیح نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ ہوا صرف سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر نہ تھی، عام قدرتی بات ہو گی۔ دوسری تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو براہ راست حضرت سلیمان علیہ السلام کی تسخیر میں دیا تھا اور ہوا پر حضرت سلیمان علیہ السلام کا حکم چلتا تھا۔ اس تشریح کے لیے بِاَمۡرِہٖۤ قرینہ بن جاتا ہے۔ اگر ضمیر سلیمان علیہ السلام کی طرف پلٹتی ہے تو اس صورت میں آیت کے یہ معنی ہوں گے:

۲۔ تَجۡرِیۡ بِاَمۡرِہٖۤ: یہ ہوا سلیمان کے حکم سے چلتی تھی۔ شیخ طوسی علیہ الرحمۃ کے نزدیک ضمیر سلیمان علیہ السلام کی طرف ہے اور سلیمان علیہ السلام کے حکم سے چلتی تھی۔

۳۔ عَاصِفَۃً: تیز ہوا۔ کشتی چلانے کے لیے جس قوت کی ضرورت تھی وہ اس ہوا میں موجود تھی اور ساتھ ساتھ آرام سے چلتی تھی جیسا کہ سورۂ ص آیت ۳۶میں فرمایا:

تَجۡرِیۡ بِاَمۡرِہٖ رُخَآءً حَیۡثُ اَصَابَ

جدھر وہ جانا چاہتے ان کے حکم سے نرمی کے ساتھ اسی طرف چل پڑتی تھی۔

یہ ہوا تیز تھی اور اس تیزی میں نرمی بھی تھی جو کشتی رانی کے لیے مساعد ہوتی ہے۔ ہوا کی تیزی میں طلاطم نہیں تھا اور نرمی میں جمود نہیں تھا۔

۴۔ اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا: وہ مبارک سرزمین شام کی سرزمین ہے جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا دارالخلافہ ہے۔ الٰی کامطلب یہ ہو سکتا ہے کہ تسخیر ہوا کی منزل ارض شام ہے۔

۵۔ وَ کُنَّا بِکُلِّ شَیۡءٍ عٰلِمِیۡنَ: اللہ اپنے احاطہ علمی کے مطابق تدبیر عالم کا عمل انجام دیتا ہے۔ ایک چھوٹی سی چھوٹی حرکت اس کے نظام تدبیر اور احاطہ علمی سے خارج نہیں ہے۔


آیت 81