وَ نَجَّیۡنٰہُ وَ لُوۡطًا اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا لِلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس سرزمین کی طرف لے گئے جسے ہم نے عالمین کے لیے بابرکت بنایا ہے۔

71۔ قوم ابراہیم علیہ السلام میں سے صرف حضرت لوط علیہ السلام ایمان لے آئے جو آپ کے بھانجے تھے۔ وہ سر زمین جو عالمین کے لیے بابرکت بنائی گئی ہے، سرزمین شام ہے۔ واضح رہے بلاد شام لبنان، فلسطین، اردن اور سوریا کے علاقوں کو کہتے ہیں۔ یہ علاقہ دو ہزار برس تک انبیاء علیہم السلام کا علاقہ رہا ہے۔

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ ؕ وَ یَعۡقُوۡبَ نَافِلَۃً ؕ وَ کُلًّا جَعَلۡنَا صٰلِحِیۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بطور عطیہ دیے اور ہم نے ہر ایک کو صالح بنایا۔

72۔ یعنی بیٹے اسحاق کے بعد پوتا یعقوب ایک عطیۂ الہٰی تھا جو دونوں نبوت کی منزلت پر فائز رہے۔ حدیث میں آیا ہے: ولد الولد نافلۃ (بحار الانوار 12: 103) بیٹے کا بیٹا (پوتا) نافلۃ کہلاتا ہے۔ نافلۃ یعنی عطیہ۔

وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءَ الزَّکٰوۃِ ۚ وَ کَانُوۡا لَنَا عٰبِدِیۡنَ ﴿ۚۙ۷۳﴾

۷۳۔ اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے نیک عمل کی انجام دہی اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کے لیے ان کی طرف وحی کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے ۔

وَ لُوۡطًا اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا وَّ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡ کَانَتۡ تَّعۡمَلُ الۡخَبٰٓئِثَ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمَ سَوۡءٍ فٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۷۴﴾

۷۴۔ اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نے انہیں اس بستی کے شر سے نجات دی جہاں کے لوگ بے حیائی کا ارتکاب کرتے تھے، یقینا وہ برائی والے اور بدکار قوم تھی۔

وَ اَدۡخَلۡنٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِنَا ؕ اِنَّہٗ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿٪۷۵﴾

۷۵۔ اور ہم نے انہیں (لوط کو) اپنی رحمت میں داخل کیا وہ یقینا صالحین میں سے تھے۔

وَ نُوۡحًا اِذۡ نَادٰی مِنۡ قَبۡلُ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَنَجَّیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗ مِنَ الۡکَرۡبِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۷۶﴾

۷۶۔ اور نوح کو بھی (ہم نے نوزا) جب انہوں نے ابراہیم سے پہلے (ہمیں) پکارا تو ہم نے ان کی دعا قبول کی، پس انہیں اور ان کے گھر والوں کو بڑی پریشانی سے نجات دی۔

وَ نَصَرۡنٰہُ مِنَ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمَ سَوۡءٍ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷ ۔ اور اس قوم کے مقابلے میں ان کی مدد کی جو ہماری نشانیوں کی تکذیب کرتی تھی، یقینا وہ برے لوگ تھے چنانچہ ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔

وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ اِذۡ یَحۡکُمٰنِ فِی الۡحَرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِیۡہِ غَنَمُ الۡقَوۡمِ ۚ وَ کُنَّا لِحُکۡمِہِمۡ شٰہِدِیۡنَ﴿٭ۙ۷۸﴾

۷۸۔ اور داؤد و سلیمان کو بھی (نوازا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت لوگوں کی بکریاں بکھر گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلے کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

78۔ اس آیت کے شان نزول میں روایت ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھس گئی تھیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ بکریوں سے اس وقت تک کھیت والا فائدہ اٹھائے جب تک بکریوں والا اس کھیت کو اسی حالت میں تیار کر کے نہ دے۔

روایت کے مطابق یہ عملی فیصلہ نہیں تھا کہ دونوں میں اختلاف آ جائے بلکہ فیصلہ تو حضرت داؤد علیہ السلام کا ہی ہونا چاہیے جو وقت کے حجت ہیں بلکہ حضرت سلیمان کا فہم و ذکاوت دیکھنا مقصود تھا چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: دونوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، بلکہ دونوں آپس میں مشاورت کر رہے تھے تو اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا۔ (الفقیہ 3: 100 باب الحکم)

فَفَہَّمۡنٰہَا سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ کُلًّا اٰتَیۡنَا حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۫ وَّ سَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ یُسَبِّحۡنَ وَ الطَّیۡرَ ؕ وَ کُنَّا فٰعِلِیۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔ تو ہم نے سلیمان کو اس کا فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو داؤد کے لیے مسخر کیا جو ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور ایسا کرنے والے ہم ہی تھے۔

79۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی میں یہ معجزہ بھی تھا کہ ان کے ساتھ پہاڑ اور پرندے تسبیح پڑھتے تھے۔ کچھ حضرات اس کی تاویل کرتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے، پرندے ٹھہر جاتے تھے۔ یہ تاویل ظاہر آیت کے خلاف ہے۔ سریلی آواز کا پہاڑ میں گونجنا حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہر اونچی آواز کی گونج پہاڑوں میں سنائی دیتی ہے، اس کو سَخَّرۡنَا ”ہم نے پہاڑ کو داؤد علیہ السلام کے لیے مسخر کر دیا“ کہنا درست نہیں۔

وَ عَلَّمۡنٰہُ صَنۡعَۃَ لَبُوۡسٍ لَّکُمۡ لِتُحۡصِنَکُمۡ مِّنۡۢ بَاۡسِکُمۡ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ شٰکِرُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور ہم نے تمہارے لیے انہیں زرہ سازی کی صنعت سکھائی تاکہ تمہاری لڑائی میں وہ تمہارا بچاؤ کرے تو کیا تم شکر گزار ہو ؟

80۔ آثار قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق بھی حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ہی زرہ سازی کی صنعت شروع ہو گئی تھی۔