آیت 82
 

وَ مِنَ الشَّیٰطِیۡنِ مَنۡ یَّغُوۡصُوۡنَ لَہٗ وَ یَعۡمَلُوۡنَ عَمَلًا دُوۡنَ ذٰلِکَ ۚ وَ کُنَّا لَہُمۡ حٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۸۲﴾

۸۲۔ اور شیاطین میں سے کچھ (کو مسخر بنایا) جو ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور اس کے علاوہ دیگر کام بھی کرتے تھے اور ہم ان سب کی نگہبانی کرتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مِنَ الشَّیٰطِیۡنِ: شیاطین سے مراد جنات ہیں جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر تھے۔ کچھ جدید مفسرین محسوس پرستی میں مبتلا ہیں کہ جو چیز ان کے لیے محسوس نہیں ہے وہ ان کی سمجھ سے باہر ہے۔جہاں ان کی حس نہیں پہنچتی وہاں ان کے نزدیک اللہ کی قدرت بھی نہیں پہنچتی۔ کہتے ہیں یہاں شیاطین (جنات) سے مراد گرد و پیش کے قبائلی لوگ ہیں۔ یہ واضح سی بات ہے کہ اگر یہ جنات نہیں، انسان تھے تو ان کو شیاطین سے تعبیر کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ ثانیاً انسان تو دیگر بہت سے بادشاہوں سرمایہ داروں کے لیے مسخر ہوتے ہیں۔ فرعون کے لیے بہت سے لوگ مسخر تھے کہ اہرام بنوایا۔ اس میں سلیمان علیہ السلام کے لیے کون سی خصوصیت ہے کہ اس اہتمام کے ساتھ اس کا ذکر کیا جائے۔

۲۔ مَنۡ یَّغُوۡصُوۡنَ لَہٗ: سلیمان علیہ السلام کے لیے غوطے لگاتے اور موتیاں نکال لاتے تھے۔

۳۔ وَ یَعۡمَلُوۡنَ عَمَلًا دُوۡنَ ذٰلِکَ: غوطے کے علاوہ دیگر کام بھی ان سے لیا جاتا تھا۔ جیسے بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر۔ دُوۡنَ ذٰلِکَ کے معنی ’’اس سے کمتر‘‘ بھی ہو سکتے ہیں۔ یعنی سمندری جواہر نکالنے سے کمتر کام بھی ان سے لیا جاتا تھا۔

۴۔ وَ کُنَّا لَہُمۡ حٰفِظِیۡنَ: جنات کے ہرکام کی ہم نظارت کرتے تھے کہ وہ کسی خلاف ورزی اور شرارت کے مرتکب نہ ہوں کہ ان کو چھوڑنا اور بند کرنا ہمارے قبضے میں ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ ان جنات کو قابو میں رکھنے کے بارے میں فرمایا:

وَّ اٰخَرِیۡنَ مُقَرَّنِیۡنَ فِی الۡاَصۡفَادِ (۳۸ص: ۳۸)

اور دوسروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔


آیت 82