آیات 87 - 88
 

وَ ذَاالنُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۷﴾

۸۷۔ اور ذوالنون کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) جب وہ غصے میں چل دیے اور خیال کرنے لگے کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے، چنانچہ وہ اندھیروں میں پکارنے لگے : تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ہی زیادتی کرنے والوں میں سے ہوں۔

فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ ۙ وَ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الۡغَمِّ ؕ وَ کَذٰلِکَ نُــۨۡجِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ پھر ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ہم نے انہیں غم سے نجات دی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ ذَاالنُّوۡنِ: النُّوۡنِ مچھلی کو کہتے ہیں۔ ان کو صاحب الحوت بھی کہتے ہیں۔ مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں۔

۲۔ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا: جب وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گیا محاسن التاویل میں لکھا ہے اکثر مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ یونس اللہ سے ناراض ہو کر چلے گئے تھے حالانکہ اللہ سے ناراض ہونا کفر ہے اور اللہ کو عاجز سمجھنے والا بھی مؤمن نہیں رہتا چہ جائیکہ اللہ کے ایک برگزیدہ نبی سے اس قسم کی لغزش سرزد ہو جائے۔

۳۔ فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ: اس نے گمان کیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔ قدر سختی کرنے کے معنی میں ہے۔ جیسے فرمایا؛

وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَیۡہِ رِزۡقَہٗ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَہَانَنِ (۸۹ فجر: ۱۶)

اور جب اسے آزما لیتا ہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتاہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔

حضرت یونس علیہ السلام کو یہ گمان تھا کہ اپنی قوم کو چھوڑ کر نکل جانے سے اللہ انہیں گرفت میں نہیں لے گا۔ ان کا اپنی قوم کو چھوڑکر نکل جانا باذن خدا نہیں تھا۔ لہٰذا اسے قلت صبر پر حمل کیاگیا ہے۔ چنانچہ حضورؐ سے فرمایا:

فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۔۔۔ (۶۸ قلم: ۴۸)

پس اپنے رب کے حکم تک صبر کریں اور مچھلی والے (یونس) کی طرح نہ ہو جائیں۔۔۔۔

اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام سے کم صبری کی کوتاہی ہوئی تھی۔

حضرت یونس بن متی علیہ السلام عراق کے اہل نینویٰ کی طرف آٹھویں صدی قبل مسیح میں مبعوث ہوئے۔ نینویٰ آشوری سلطنت کا دار الحکومت تھا۔ اس قوم نے حضرت یونس علیہ السلام کی دعوت کو مسترد کیا۔ قوم سے مایوس ہو کر یہاں سے نکل گئے اور ایک دریا کو عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوئے۔ کشتی میں تلاطم آیا یا زائد لوگ بیٹھ گئے تھے، غرق ہونے کا خطرہ لاحق ہوا۔ ایک روایت کے مطابق طے پایا کہ ایک آدمی کی قربانی دی جائے تاکہ سب لوگ غرق نہ ہوں۔ قرعہ اندازی کا فیصلہ ہوا۔ قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کے نام نکلا۔ انہیں دریا میں پھینک دیا۔ ایک بڑی مچھلی نے انہیں نگل لیا۔

۴۔ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ: یہاں دریا کی تاریکی، مچھلی کے پیٹ کی تاریکی مراد ہو سکتی ہے۔ اس تاریکی میں حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا: اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ۔ پہلے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا جیسا کہ آداب دعا یہی ہے کہ اپنا مدعی پیش کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی حمد و ثنا بجا لائی جائے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی آتش نمرود میں جاتے ہوئے دعا میں کہا تھا: یا واحد یا احد یا صمد یا من لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد ۔

۵۔ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ: پھر اپنا مدعا پیش کرنے سے پہلے اپنی کوتاہی اپنی تقصیر کا اقرار کیا۔ حضرت یونس علیہ السلام سے صبر کے سلسلے میں جو ترک اولی ہوا تھا، اسی کو انبیاء علیہم السلام اپنی تقصیر اور کوتاہی سمجھتے ہیں

۶۔ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ: ہم نے یونس علیہ السلام کی دعا قبول کی اور انہیں غم و اندوہ سے نجات دی۔ چنانچہ تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد مچھلی نے انہیں ساحل پر پھینک دیا۔ چنانچہ حضرت علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے حکم ملا کہ وہ دوبارہ نینویٰ جائیں اور اپنی دعوت جاری رکھیں۔

اہل نینویٰ بنا بقولے عذاب کی علامتیں دیکھ کر ایمان لے آئے۔ اس طرح نینویٰ وہ واحد بستی ہے جس کے تمام لوگ اپنے رسول پر ایمان لے آئے۔ چنانچہ سورہ یونس آیت ۹۸ میں آیا:

فَلَوۡ لَا کَانَتۡ قَرۡیَۃٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمَانُہَاۤ اِلَّا قَوۡمَ یُوۡنُسَ ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفۡنَا عَنۡہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ مَتَّعۡنٰہُمۡ اِلٰی حِیۡنٍ

کیا کوئی بستی ایسی ہے کہ (بروقت) ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہو سوائے قوم یونس کے؟ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے ٹال دیا اور ایک مدت تک انہیں (زندگی سے) بہرہ مند رکھا۔

بعض لوگ مچھلی کے پیٹ میں ایک انسان کا تین دن تک زندہ سلامت رہنا ناممکن تصور کرتے ہیں حالانکہ معجزہ سے ہٹ کر عام حالات میں اس قسم کے واقعات ہمارے زمانے میں پیش آتے ہیں۔ چنانچہ ۲۰۰۶؁ء میں ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک شخص چند روز بعد نہنگ (مگرمچھ) کے پیٹ سے سالم نکل آیا تھا۔

وَ کَذٰلِکَ نُــۨۡجِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: اسی طرح مؤمنین کو بھی ہم نجات بخشتے ہیں۔ سچے مؤمن، سچے دل سے، صرف زبانی نہیں، اپنے پورے وجود کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں تو قبولیت دعا کا وعدہ ہے۔ یہ بات صرف یونس علیہ السلام کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ جس مؤمن سے لغزش ہو جائے پھر وہ اپنی تقصیر کا اعتراف کر کے اللہ سے نجات مانگے۔ اللہ اسے نجات دے گا۔

اہم نکات

۱۔ اپنی تقصیر اور گناہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔

۲۔ تقصیر کے بعد اللہ ہی کو پکارنا چاہیے۔


آیات 87 - 88