اُنۡظُرۡ کَیۡفَ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ وَ لَلۡاٰخِرَۃُ اَکۡبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَکۡبَرُ تَفۡضِیۡلًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ دیکھ لیجیے: ہم نے کس طرح ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے زیادہ بڑی اور فضیلت کے اعتبار سے بھی زیادہ بڑی ہے۔

21۔ دنیا میں محنت اور کوشش کی بنا پر بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے۔ جو زیادہ محنت کرتا ہے اس کے پاس زیادہ مال و دولت ہوتی ہے۔ اسی سے آخرت کا حال بھی قابل فہم ہو جاتا ہے کہ وہاں بھی سعی اور کوشش یعنی عمل کے ذریعے بعض کو فوقیت حاصل ہو گی۔ مگر دنیا میں جو مال و جاہ میں فضیلت حاصل ہوا کرتی ہے، اس سے آخرت کی فضیلت بہت زیادہ بڑی ہے۔ دنیا کا مال و دولت، جاہ و سلطنت نا پائیدار اور آخرت کے درجات و فضیلت ابدی اور دائمی ہیں۔

لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَقۡعُدَ مَذۡمُوۡمًا مَّخۡذُوۡلًا﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنا ورنہ تو مذموم اور بے یار و مددگار ہو کر بیٹھ جائے گا۔

22۔ اس کائنات کے سرچشمہ قوت کے ساتھ کسی ایسی چیز کو سرچشمہ طاقت قرار دیا جائے جس کی کوئی حقیقت نہ ہو تو یہاں دو باتیں اس کے لازمہ کے طور پر سامنے آتی ہیں: 1۔ یہ عمل خود اپنی جگہ ایک قابل مذمت ہے کہ ایک لاشیء کو خدائے قہار کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے 2۔ طاقت و قوت اور سرچشمہ فیض سے محرومی کا بھی سبب بنے گا۔ کیونکہ جب وہ ایک لا شیء کو سرچشمہ فیض قرار دیتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ محرومیت اور بے یار و مددگار رہنا ہے۔

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔

وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾

۲۴۔ اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: میرے رب! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔

23۔ 24 جس طرح والدین بڑھاپے میں اولاد کے احسان کے محتاج ہوتے ہیں، اولاد کو بھی خرد سالی میں والدین کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ نے اس ضرورت کو فطرت کے ذریعے پورا کیا اور والدین کے دل میں اولاد کی محبت اس طرح ودیعت فرمائی کہ وہ اولاد کو جان سے عزیز سمجھتے ہیں، جبکہ والدین پر احسان کو توحید کے بعد اہم ترین فریضہ قرار دیا، کیونکہ انسان فطرتاً آنے والی نسل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اولاد والدین کو فراموش کرتی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: اَدْنَی الْعُقُوقِ اُفٍّ وَ لَو عَلِمَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ شَیْئاً اَھْوَنَ مِنْہُ لَنَھَی عَنْہُ ۔ (اصول الکافی 2: 348) کم ترین نافرمانی اف کرنا ہے۔ اگر اس سے بھی کمتر بات ہوتی تو اللہ اس سے بھی منع فرماتا۔

رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡ نُفُوۡسِکُمۡ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا صٰلِحِیۡنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلۡاَوَّابِیۡنَ غَفُوۡرًا﴿۲۵﴾

۲۵۔جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس پر تمہارا رب زیادہ باخبر ہے، اگر تم صالح ہوئے تو وہ پلٹ کر آنے والوں کے لیے یقینا بڑا معاف کرنے والا ہے۔

وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا﴿۲۶﴾

۲۶۔اور قریب ترین رشتے دار کو اس کا حق دیا کرو اور مساکین اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی نہ کیا کرو۔

26۔ابن مردویہ، بزاز، ابویعلی اور ابو حاتم نے ابوسعید خدری سے اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدک حضرت فاطمہ (س) کے حوالے کر دیا۔ (در منثور 4: 320)۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک شامی کے سوال کے جواب میں فرمایا ذا القربی ہم ہیں (در منثور 4: 318)

اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا﴿۲۷﴾

۲۷۔ فضول خرچی کرنے والے یقینا شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔

27۔ اسراف اور تبذیر میں فرق یہ ہے کہ اگر خرچ کرنا بنیادی طور پر درست ہو، مگر ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے تو یہ اسراف ہے اور اگر خرچ کرنا سرے سے درست ہی نہ ہو تو یہ تبذیر ہے، جیسے کتے اور بلی کو شوقیہ پالنا وغیرہ۔

مال اطاعت الہٰی کا بہترین ذریعہ ہے، اس ذریعے کا اتلاف تبذیر ہے اور شیطان کا بنیادی ہدف ذرائع کا اتلاف ہے، لہٰذا وہ لوگ جو ذرائع کو بے مقصد چیزوں پر خرچ کر کے تلف کر دیتے ہیں وہ عمل میں شیطان کے بھائی قرار پاتے ہیں۔

وَ اِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡہُمُ ابۡتِغَآءَ رَحۡمَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ تَرۡجُوۡہَا فَقُلۡ لَّہُمۡ قَوۡلًا مَّیۡسُوۡرًا﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اگر آپ اپنے رب کی رحمت کی تلاش میں جس کی آپ کو امید بھی ہو ان لوگوں کی طرف توجہ نہ کر سکیں تو ان سے نرمی کے ساتھ بات کریں۔

وَ لَا تَجۡعَلۡ یَدَکَ مَغۡلُوۡلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور نہ تو آپ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھیں اور نہ ہی اسے بالکل کھلا چھوڑ دیں، ورنہ آپ ملامت کا نشانہ اور تہی دست ہو جائیں گے۔

29۔ ہاتھ باندھنا بخل اور کھلا چھوڑنا فضول خرچی کی طرف اشارہ ہے۔

اِنَّ رَبَّکَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیۡرًۢا بَصِیۡرًا﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ یقینا آپ کا رب جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ اور تنگ کر دیتا ہے، وہ اپنے بندوں کے بارے میں یقینا نہایت باخبر، نگاہ رکھنے والا ہے۔