آیت 29
 

وَ لَا تَجۡعَلۡ یَدَکَ مَغۡلُوۡلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور نہ تو آپ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھیں اور نہ ہی اسے بالکل کھلا چھوڑ دیں، ورنہ آپ ملامت کا نشانہ اور تہی دست ہو جائیں گے۔

تفسیر آیات

ہاتھ باندھنا بخل اور اسے کھلا چھوڑنا فضول خرچی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ آیت سابقہ آیات میں موجود احکام کا خلاصہ اور نتیجہ ہے جن میں مصارف مال کا تعین اور اسراف و تبذیر سے منع فرمایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انفاق کے بارے میں نہ تو بخل کرنا چاہیے، نہ ہی اسراف و تبذیر۔ دونوں صورتوں میں انسان ملامت کا نشانہ بنتا ہے۔

ہم نے وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ کی تفسیر اسراف سے اس لیے کی ہے اگر حقوق کی ادائیگی اور جائز مصارف میں انسان اپنا سارا مال و متاع دے دے تو یہ ایثار قابل ملامت نہیں ہے۔ ثانیاً دوسری آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے:

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴿﴾ (۲۵ فرقان: ۶۷)

اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ تمام امور میں اعتدال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔


آیت 29