آیات 26 - 27
 

وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا﴿۲۶﴾

۲۶۔اور قریب ترین رشتے دار کو اس کا حق دیا کرو اور مساکین اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی نہ کیا کرو۔

اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا﴿۲۷﴾

۲۷۔ فضول خرچی کرنے والے یقینا شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔

تشریح کلمات

الۡمُبَذِّرِیۡنَ:

( ب ذ ر ) التبذیر کے معنی پراگندہ کرنے اور بکھیرنے کے ہیں۔ بطور استعارہ مال ضائع کرنے کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔

تفسیر آیات

والدین پر احسان کے حکم کے بعد ان لوگوں کا ذکر ہے اسلام نے جن کے حقوق متعین کیے ہیں۔ وہ قریبی رشتے دار، مساکین اور مسافر ہیں۔

۱۔ ذَاالۡقُرۡبٰی: خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے لہٰذا ذَاالۡقُرۡبٰی کے اولین مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی رشتے دار ہیں تاہم آیت کا مفہوم وسیع ہے اور تمام رشتے داروں کو شامل کرتا ہے۔

۲۔ الۡمِسۡکِیۡنَ: مساکین کے بارے میں گزشتہ آیات میں تفصیل کے ساتھ ذکر آ چکا ہے۔ البقرۃ : ۸۳، ۱۷۷ ملاحظہ فرمائیں۔

۳۔ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ: راہ ماندہ مسافروں کے لیے اسلامی نظام میں مستقل فنڈ کا اہتمام ہے۔

مذکورہ بالا مصارف کے تعین کا مطلب یہ ہے کہ مادی اقدار کا تعلق انسانی قدروں کے ساتھ ہے۔ مصرف اگر قریبی رشتے دار، مساکین اور راہ ماندہ مسافر ہیں تو ان کا حق ادا کرنا واجب ہے۔ اگر مصرف انسانی اور الٰہی قدروں کے خلاف ہو تو وہ تبذیر و اسراف ہے۔

اسراف اور تبذیر میں فرق: اگر کسی مال کا مصرف اصولاً درست ہے مگر اس پر ضرورت سے زیادہ خرچ ہوتا ہے تو یہ اسراف ہے۔ مثلا گھر انسانی ضرورت ہے مگر اس پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے۔

جبکہ تبذیر میں اس کا مصرف اصولاً درست نہیں ہوتا ہے۔ مثلاً فسق و فجور اور ریاکاری پرخرچ کرنا، اسی طرح کتوں ، بلیوں اور جوئے پر خرچ کرنا تبذیر ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ ؑنے فرمایا:

مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاً فِی غَیْرِ طَاعَۃِ اللّٰہِ فَھُوَ مَبّذِّرٌ ۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۱۵:۲۶۹)

جو شخص اپنا مال اطاعت الٰہی کے علاوہ دیگر جگہوں پر خرچ کرے، وہ تبذیر کرنے والا ہے۔

البتہ جہاں تبذیر ہے وہاں اسراف بھی ہے لیکن جہاں اسراف ہے وہاں تبذیر کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:

اَلَا وَ اِنَّ اِعْطَائَ الْمَالِ فِی غَیْرِ حَقِّہِ تَبْذِیرٌ وَ اِسْرَافٌ ۔۔۔۔( نہج البلاغۃ خ ۱۲۶)

واضح رہے کہ ناحق جگہ پر مال خرچ کرنا تبذیر اور اسراف ہے۔

شیطان کا بھائی:مال، اطاعت الٰہی کا بہترین ذریعے ہے۔ اس ذریعے کا اتلاف تبذیر ہے اور شیطان کا بنیادی ہدف ذرائع کا اتلاف ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جو ان ذرائع کو بے مقصد چیزوں پر خرچ کر کے تلف کر دیتے ہیں وہ عمل میں شیطان کے بھائی قرار پاتے ہیں۔

تبذیر کا المیہ: ہمارے معاصر اخوان الشیاطین کی تبذیر نہایت وحشتناک ہے۔ یہ لوگ اپنے شیطانی حربوں سے تیسری دنیا کا استحصال کر کے جو دولت حاصل کرتے ہیں اسے بے دردی سے لغویات پر خرچ کرتے ہیں۔ جس دنیا کا استحصال کرتے ہیں ‘ اس میں کروڑوں انسانوں کو بھوکا رکھتے اور نہایت بے شرمی سے انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صرف امریکہ میں اس سال (2011ء) کتوں اور بلیوں پر اٹھنے والے اخراجات ۴۱ بلین ڈالر سالانہ ہیں۔ اگلے دو سالوں میں یہ اخراجات ۵۲ بلین ڈالر سالانہ تک ہوں گے۔ دیگر یورپین ممالک میں اٹھنے والے اخراجات اس کے علاوہ ہیں جو افریقی غریب ممالک کے بھوکے انسانوں کی ضروریات سے زیادہ ہیں۔ ان اخوان الشیاطین کے بارے میں شاعر کا یہ قول صادق آتا ہے۔

وکان فتی من جند ابلیس فارتقی

بہ الحال حتی صار ابلیس من جندہ

یہ شخص کبھی ابلیس کا سپاہی تھا اب ترقی اس حد تک مل گئی ہے کہ ابلیس اس کا سپاہی ہوگیا ہے۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک شامی سے پوچھا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟

اس نے کہا: ہاں

فرمایا: کیا تم نے سورہ بنی اسرائیل میں یہ آیت پڑھی ہے: وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ ۔۔۔۔

اس نے کہا: کیا ذَاالۡقُرۡبٰی سے آپ لوگ مراد ہیں جن کا حق دینے کا اللہ نے حکم کیا ہے۔

فرمایا: ہاں۔ ( الدرالمنثور )

حدیث ہے:

لما نزلت ھذہ الایۃ وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ دعا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم فاطمۃ فاعطاھا فدک ۔

جب آیت وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ (س) کو بلایا اور اور انہیں فدک عنایت فرمایا۔

اس حدیث کو ابن عباس، ابو سعید خدری اور خود حضرت علی علیہ السلام نے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو مجمع الزوائد حدیث ۴۹۷۔ میزان الاعتدال ۲: ۲۲۸۔ منتخب کنزالعمال۔ شواھد التنزیل ۱: ۴۴۲۔ الدرالمنثور ذیل آیت۔

علی بن طاؤس سعد السعود صفحہ ۱۰۲ میں لکھتے ہیں : محمد بن العباس، جو ابن الحجام مشہور ہیں ، نے حدیث فدک کو بیس (۲۰) طرق سے روایت کیا ہے۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: سید مرتضیٰ علم الہدیٰ کی کتاب الشافی۔ بحارالانوار ۲۹:۲۰۵۔ سیرت امیر المؤمنین (ع) اور الغدیر ۷: ۱۹۰۔ ۸:۱۳۷۔

اہم نکات

۱۔ مالی حقوق ادا کرنے والے شیطان سے دور ہیں۔

۲۔ اقتصادی قوت کا اتلاف شیطانی عمل ہے۔


آیات 26 - 27