آیات 23 - 24
 

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔

وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾

۲۴۔ اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: میرے رب! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔

تشریح کلمات

قَضٰی:

( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولاً یا عملاً کسی کام کا فیصلہ کر دینے کے ہیں۔

اُفٍّ:

( ا ف ف ) الافُّ اصل میں ہر گندی اور قابل نفرت چیز کو کہتے ہیں۔ میل کچیل، ناخن کا تراشا وغیرہ۔

تَنۡہَرۡ:

( ن ھ ر ) اَلنَّھرُ و الانتھار ۔ سختی سے جھڑکنا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا: آیت میں قَضٰى اس امر کے لیے استعمال ہوا ہے جو زیادہ لازم اور واجب ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور ابی بن کعب کی قرائت کے مطابق قَضٰى کی جگہ وَصّٰی ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں : اصل میں وَ وَصّٰی تھا۔ پھر دو واو میں ایک واو وَصّٰی کے صاد کے ساتھ مل گئی تو لوگوں نے قضیٰ سمجھا ہے۔ اس زمانے میں حروف پر نقطے نہیں ہوتے تھے۔ ابن عباس کہتے ہیں :

اذ لو کان علی القضاء ما عصی احد ۔

اگر لفظ قضاء ہوتا تو اللہ کی کوئی نافرمانی نہ کرتا۔

ابن عباس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ قضیٰ حکم تکوینی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اللہ کے حکم تکوینی کی نافرمانی نہیں ہو سکتی۔ نافرمانی حکم تشریعی میں ہوتی ہے۔ ( تفسیر قرطبی ۔ ذیل آیہ)

۲۔ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا: جس طرح والدین بڑھاپے میں اولاد کے احسان کے محتاج ہوتے ہیں ، اولاد کو بھی بچپنے میں والدین کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ضرورت کو تکوین و فطرت کے ذریعے پورا کیا کہ والدین کے دل میں اولاد کی محبت اس طرح ودیعت فرمائی کہ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ اولاد کو عزیز سمجھتے ہیں۔ حفظ و بقائے نوع انسانی کے لیے ضروری تھا کہ انسان کے دل میں اولاد کی محبت اس قدر جاگزین ہو کہ وہ اولاد سے دست بردار نہ ہو سکے۔ اگر یہ عمل فطرت کے حوالے نہ ہوتا اور تشریع و قانون کے ذریعے والدین کو حکم ملتا کہ اپنی اولاد پرشفقت کریں تو اس پر باقی احکام کی طرح عمل کم ہوتا اور بقائے نوع انسانی خطرے میں پڑ جاتی۔

جب کہ والدین پر احسان کو توحید کے بعد اہم ترین قانون اور دستور الٰہی قرار دیاکیونکہ انسان فطرتاً آنے والی نسل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اولاد والدین کے احسانات کو فراموش کرتی ہے۔ اس لیے اولاد والدین کو وہ مہر و محبت نہیں دے سکتی جو انہوں نے انہیں بچپنے میں دی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس قانون کو اپنی عبادت کے بعد اہم ترین قرار دے کر فرمایا:

اِمَّا یَبۡلُغَنَّ: ان پر احسان کرو۔ وہ عالم ضعف و پیری میں احسان کے محتاج ہوتے ہیں۔

ii۔ فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ: ان کو اف تک نہ کہو۔ ان کی خدمت خندہ پیشانی کے ساتھ انجام دیا کرو۔ آداب کے دائرے سے اُف کی حد تک بھی تجاوز نہ کرو۔

۳۔ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا: ان کو جھڑ کو نہیں۔ ان کے مطالبات کو فراخدلی سے پورا کرو۔

۴۔ وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا: ان سے گفتگو کرو تو عزت و تکریم کے ساتھ۔ یہ ساری باتیں انسان کے امکان میں ہیں۔

۵۔ وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ: والدین کے سامنے تواضع کے ساتھ پیش آؤ۔ ایسی تواضح جس کا سرچشمہ مِنَ الرَّحۡمَۃِ مہر و وفا ہو۔

۶۔ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا: اللہ سے دعا کرو: پروردگار! ان پر رحم کر جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔ جو مہر و شفقت والدین نے بچپن میں اولاد کو دی ہے وہ اولاد والدین کو نہیں دے سکتی۔ لہٰذا یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے والدین پر اسی طرح احسان کرو جس طرح وہ بچپن میں تمہاری پرورش کرتے تھے بلکہ اللہ سے درخواست کرو: وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا ۔۔۔۔

روایت ہے کہ جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:

الاِحْسَانُ اَنْ تُحْسِنَ صُحْبَتَھُمَا وَ لاَ تُکَلِّفَہُمَا اَنْ یَسْئَلَاکَ شَیْئاً ہُمَا یَحْتَاجَانِ اِلَیْہِ وَ اِنْ کَانَا مُسْتَغْنِیَیْنِ أ لَیْسِ اللّٰہُ یَقُولُ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔۔۔ وَ اَمَّا قَوْلُہُ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ قَالَ: اِنْ اَضْجَرَاکَ فَلَا تَقُلْ لَھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا اِنْ ضَرَبَاکَ ۔۔۔۔ الآخر ( مستدرک ۱۵: ۱۷۳ باب وجوب بر والدین )

والدین پر احسان سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ احسن طریقہ سے رہنا کہ ان کو تجھ سے اپنی ضرورت کی کسی چیز کا سوال کرنے کی نوبت نہ آئے خواہ وہ دونوں بے نیاز ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا اللہ نے نہیں فرمایا: تم نیکی کی منزل پر فائز نہیں ہو سکتے جب ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم پسند کرتے ہو اور اگر والدین تمہیں تنگ کریں تو اف تک نہ کہو اور اگر وہ تمہیں ماریں تو انہیں مت جھڑکو۔۔۔۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

اَدْنَی الْعُقُوقِ اُفٍّ۔ وَ لَو عَلِمَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ شَیْئاً اَھْوَنَ مِنْہُ لَنَھَی عَنْہُ ۔ ( الکافی ۲: ۳۴۸ باب العقوق )

کم ترین عاق اف کرنا ہے۔ اگر اس سے کمتر کوئی چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی منع فرماتا۔

اہم نکات

۱۔ الٰہی انسان، فطرت کے تحت اولاد سے محبت اور شریعت کے تحت والدین پر احسان کرتا ہے۔

۲۔ اسلام انسانی قدروں (والدین پر احسان) کو توحید کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

۳۔ اسلامی تعلیمات کی فضا میں ایک خوشگوار خاندان تشکیل پاتا ہے۔


آیات 23 - 24