وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾

۲۴۔ اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: میرے رب! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔

23۔ 24 جس طرح والدین بڑھاپے میں اولاد کے احسان کے محتاج ہوتے ہیں، اولاد کو بھی خرد سالی میں والدین کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ نے اس ضرورت کو فطرت کے ذریعے پورا کیا اور والدین کے دل میں اولاد کی محبت اس طرح ودیعت فرمائی کہ وہ اولاد کو جان سے عزیز سمجھتے ہیں، جبکہ والدین پر احسان کو توحید کے بعد اہم ترین فریضہ قرار دیا، کیونکہ انسان فطرتاً آنے والی نسل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اولاد والدین کو فراموش کرتی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: اَدْنَی الْعُقُوقِ اُفٍّ وَ لَو عَلِمَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ شَیْئاً اَھْوَنَ مِنْہُ لَنَھَی عَنْہُ ۔ (اصول الکافی 2: 348) کم ترین نافرمانی اف کرنا ہے۔ اگر اس سے بھی کمتر بات ہوتی تو اللہ اس سے بھی منع فرماتا۔