وَ یَدۡعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہٗ بِالۡخَیۡرِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔

11۔ انسان کی عجلت پسندی عزت کی جگہ ذلت، کامیابی کی جگہ ناکامی اور خیر کی جگہ شر کی طرف لیے جاتی ہے۔ چنانچہ انسان کی بیشتر ناکامیوں کا سبب یہی عجلت پسندی ہے۔ عجلت پسندی کا مغلوب انسان زمینی حقائق کی جگہ ذہنی آرزوؤں پر چلتا ہے اور ناکام ہو جاتا ہے۔

وَ جَعَلۡنَا الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ اٰیَتَیۡنِ فَمَحَوۡنَاۤ اٰیَۃَ الَّیۡلِ وَ جَعَلۡنَاۤ اٰیَۃَ النَّہَارِ مُبۡصِرَۃً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ وَ کُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہُ تَفۡصِیۡلًا﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے پھر ہم نے رات کی نشانی کو ماند کر دیا اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور سالوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہم نے ہر چیز کو پوری تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔

وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ ؕ وَ نُخۡرِجُ لَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلۡقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور ہم نے ہر انسان کا عمل اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب پیش کریں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔

13۔ انسان کا عمل بطور انرجی اڑ جاتا ہے۔ اس لیے اس کو طائر کہا ہے۔ (قاموس قرآن)

اِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفۡسِکَ الۡیَوۡمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال! آج اپنے حساب کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

14۔ ہر انسان کی سعادت و شقاوت، کامیابی و ناکامی نیز اچھی عاقبت یا برے انجام کا دار و مدار اس کے اپنے عمل پر ہے۔ وہ اپنے عمل کے ہاتھوں اسیر ہے اور اپنے عمل ہی کے ذریعے آزاد ہو سکتا ہے۔ وہ خیر و شر کے دروازے اپنے عمل کی چابی سے کھول سکتا ہے۔ قیامت کے دن اس کے اعمال کھلی کتاب کی شکل میں اس کے سامنے رکھ دیے جائیں گے۔

مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا﴿۱۵﴾

۱۵۔ جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہدایت حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنے ہی خلاف گمراہ ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔

وَ اِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّہۡلِکَ قَرۡیَۃً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِیۡہَا فَفَسَقُوۡا فِیۡہَا فَحَقَّ عَلَیۡہَا الۡقَوۡلُ فَدَمَّرۡنٰہَا تَدۡمِیۡرًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔

16۔ قرآن کے مطابق ہر قوم کی تباہی اس کے مراعات یافتہ طبقہ مترفین کی طرف سے آتی ہے، وہ تمام تر وسائل اور سہولیات کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور محروم طبقہ کے حقوق کو پامال کرتے ہیں۔ یہاں سے بقائے باہمی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور قومیں ہلاکت کا شکار ہوتی ہیں۔

وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡۢ بَعۡدِ نُوۡحٍ ؕ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ بِذُنُوۡبِ عِبَادِہٖ خَبِیۡرًۢا بَصِیۡرًا﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور نوح کے بعد کتنی نسلوں کو ہم نے ہلاکت میں ڈال دیا اور آپ کا رب ہی اپنے بندوں کے گناہوں پر آگاہی رکھنے، نگاہ رکھنے کے لیے کافی ہے ۔

17۔ تاریخ عالم کا آغاز نوح علیہ السلام کے بعد ہوا۔ اس دور میں انسان نے تمدن میں قدم رکھا، انحراف آیا، شریعت بنی اور سرکشیاں ہوئیں۔ اس لیے ہلاکتیں بھی نوح علیہ السلام کے بعد کی نسلوں میں آئیں۔

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعَاجِلَۃَ عَجَّلۡنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلٰىہَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا﴿۱۸﴾

۱۸۔ جو شخص عجلت پسند ہے تو ہم جسے جو چاہیں اس دنیا میں اسے جلد دیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم کو مقرر کیا ہے جس میں وہ مذموم اور راندہ درگاہ ہو کر بھسم ہو جائے گا۔

وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور جو شخص آخرت کا طالب ہے اور اس کے لیے جتنی سعی درکار ہے وہ اتنی سعی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی سعی مقبول ہو گی۔

18۔ 19 یہ اس شخص کا ذکر ہے جو صرف طالب دنیا ہو اور آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ ایسے شخص کے لیے فرمایا: جو شخص عجلت پسند ہو ہم بھی عجلت سے دے دیتے ہیں۔ یعنی ہم اس کے لیے دنیا کی نعمتوں میں فراوانی کرتے ہیں، نادان اس فراوانی نعمت کو دیکھ کر اسے کامیابی تصور کرتے ہیں، جبکہ درحقیقت یہ اس کے لیے نقمت اور عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ لیکن اگر کوئی آخرت کے لیے کھیتی کے عنوان سے طالب دنیا ہو تو یہ مذموم نہیں ہے بلکہ دنیا سعادت اخروی کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ انبیاء، صلحاء اور متقین نے اسی دنیاوی زندگی سے عند اللہ مقام بنایا ہے۔ چنانچہ دوسرے جملے میں فرمایا: اور جو شخص طالب آخرت ہو، اس کے لیے مطلوبہ سعی بھی کرتا ہو تو اس کی سعی کی قدردانی ہو گی۔ ظاہر ہے یہ سعی اسی دنیاوی زندگی میں کرنا ہے۔ البتہ اس سعی کے ساتھ ایمان کا ہونا شرط ہے۔ اگر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرہ نہ ہو تو سعی بھی وجود میں نہ آئے گی۔

کُلًّا نُّمِدُّ ہٰۤؤُلَآءِ وَ ہٰۤؤُلَآءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّکَ ؕ وَ مَا کَانَ عَطَـآءُ رَبِّکَ مَحۡظُوۡرًا﴿۲۰﴾

۲۰۔ ہم (دنیا میں) ان کی بھی اور ان کی بھی آپ کے رب کے عطیے سے مدد کرتے ہیں اور آپ کے رب کا عطیہ ـ(کسی کے لیے بھی) ممنوع نہیں ہے۔

20۔ چنانچہ یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام نہایت غیر جانبدار ہے۔ پانی، خاک، ہوا اور دھوپ وغیرہ سے مومن اور کافر دونوں یکساں طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔