یَوۡمَ تَاۡتِیۡ کُلُّ نَفۡسٍ تُجَادِلُ عَنۡ نَّفۡسِہَا وَ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ اس دن ہر شخص اپنی صفائی کی حجتیں قائم کرتے ہوئے پیش ہو گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

111۔ بروز قیامت نفسا نفسی کے عالم میں انسان کو صرف اپنے نفس کی فکر لاحق ہو گی اور بارگاہ الٰہی میں حساب کے لیے جب پیش ہو گا اور بد اعمالیوں کے بارے میں پوچھا جائے گا تو عذر پیش کرنے اور حیل و حجت میں مصروف ہو گا۔ چونکہ جرم خود منصف کے سامنے سرزد ہوا ہے، اس لیے اس کی معذرت اور حجت قبول نہ ہو گی۔ تاہم اس پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ نیکی کے اجر میں کمی نہ ہو گی، زیادہ ہو سکتا ہے اور بدی کے بدلہ زیادہ نہ ہو گا، کمی ہو سکتی ہے۔

وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرۡیَۃً کَانَتۡ اٰمِنَۃً مُّطۡمَئِنَّۃً یَّاۡتِیۡہَا رِزۡقُہَا رَغَدًا مِّنۡ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتۡ بِاَنۡعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الۡجُوۡعِ وَ الۡخَوۡفِ بِمَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ اور اللہ ایسی بستی کی مثال دیتا ہے جو امن سکون سے تھی، ہر طرف سے اس کا وافر رزق اسے پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمات کی ناشکری شروع کی تو اللہ نے ان کی حرکتوں کی وجہ سے انہیں بھوک اور خوف کا ذائقہ چکھا دیا۔

112۔ ابن عباس کی روایت کے مطابق اس بستی سے مراد مکہ ہے۔ بظاہر مکہ میں دعوت ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ دو باتیں موجود تھیں: امن اور رزق کی فراوانی۔ حرم کعبہ کی وجہ سے امن حاصل تھا اور حاجیوں کے باعث ہر سال ہر طرف سے رزق کی فراوانی ہوتی تھی۔ مگر ان لوگوں نے اس نعمت کی قدر دانی نہیں کی تو ان پر قحط اور خوف کا تسلط ہو گیا۔

وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡہُمۡ فَکَذَّبُوۡہُ فَاَخَذَہُمُ الۡعَذَابُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور بتحقیق ان کے پاس خود انہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیں عذاب نے اس حال میں آ لیا کہ وہ ظالم تھے۔

فَکُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلًا طَیِّبًا ۪ وَّ اشۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ پس جو حلال اور پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اس کی بندگی کرتے ہو۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور اس چیز کو جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو حرام کر دیا ہے، پس اگر کوئی مجبور ہوتا ہے نہ (قانون کا ) باغی ہو کر اور نہ (ضرورت سے) تجاوز کا مرتکب ہو کر تو اللہ یقینا بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلۡسِنَتُکُمُ الۡکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۱۶﴾ؕ

۱۱۶۔ اور جن چیزوں پر تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگاتی ہیں ان کے بارے میں نہ کہو یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تم اللہ پر جھوٹ افترا کرو، جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ یقینا فلاح نہیں پاتے ۔

115۔116 خطاب اس مرتبہ مسلمانوں سے ہے کہ تم پر جو حرام قرار دیا ہے وہ مردار، خون، سور کا گوشت اور وہ جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ ان کے علاوہ جن چیزوں کو تم حرام و حلال قرار دیتے ہو یہ اللہ پر افترا ہے۔ واضح رہے قانون سازی اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا حصہ ہے۔ لہٰذا اس میں مداخلت اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔

مَتَاعٌ قَلِیۡلٌ ۪ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ چند روزہ کیف ہے اور پھر ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

وَ عَلَی الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا مَا قَصَصۡنَا عَلَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اور جنہوں نے یہودیت اختیار کی ہے ان پر وہی چیزیں ہم نے حرام کر دیں جن کا ذکر پہلے ہم آپ سے کر چکے ہیں اور ہم نے تو ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیۡنَ عَمِلُوا السُّوۡٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۱۹﴾٪

۱۱۹۔ پھر بے شک آپ کا رب ان کے لیے جنہوں نے نادانی میں برا عمل کیا پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور اصلاح کر لی تو یقینا اس کے بعد آپ کا رب بڑا بخشنے والا ، مہربان ہے۔

119۔ یہاں جہالت سے مراد حقیقت گناہ اور اس کے ارتکاب کے برے اثرات سے نا آشنائی ہو سکتی ہے، ورنہ بغیر کسی کوتاہی کے گناہ کا علم ہی نہ ہو تو یہ سرے سے گناہ نہیں ہے۔توبہ کے بعد اصلاح کا ذکر اس لیے آیا کہ اصلاح توبہ کا لازمی نتیجہ ہے، کیونکہ توبہ برے اعمال سے برگشتہ ہونے کو کہتے ہیں اور برے اعمال کو چھوڑنے کا مطلب اصلاح ہے۔

اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیۡفًا ؕ وَ لَمۡ یَکُ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۲۰﴾ۙ

۱۲۰۔ ابراہیم (اپنی ذات میں) ایک امت تھے اللہ کے فرمانبردار اور ( اللہ کی طرف) یکسو ہونے والے تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔