وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرۡیَۃً کَانَتۡ اٰمِنَۃً مُّطۡمَئِنَّۃً یَّاۡتِیۡہَا رِزۡقُہَا رَغَدًا مِّنۡ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتۡ بِاَنۡعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الۡجُوۡعِ وَ الۡخَوۡفِ بِمَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ اور اللہ ایسی بستی کی مثال دیتا ہے جو امن سکون سے تھی، ہر طرف سے اس کا وافر رزق اسے پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمات کی ناشکری شروع کی تو اللہ نے ان کی حرکتوں کی وجہ سے انہیں بھوک اور خوف کا ذائقہ چکھا دیا۔

112۔ ابن عباس کی روایت کے مطابق اس بستی سے مراد مکہ ہے۔ بظاہر مکہ میں دعوت ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ دو باتیں موجود تھیں: امن اور رزق کی فراوانی۔ حرم کعبہ کی وجہ سے امن حاصل تھا اور حاجیوں کے باعث ہر سال ہر طرف سے رزق کی فراوانی ہوتی تھی۔ مگر ان لوگوں نے اس نعمت کی قدر دانی نہیں کی تو ان پر قحط اور خوف کا تسلط ہو گیا۔