شَاکِرًا لِّاَنۡعُمِہٖ ؕ اِجۡتَبٰہُ وَ ہَدٰىہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۱۲۱﴾

۱۲۱۔ (وہ) اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں برگزیدہ کیا اور صراط مستقیم کی طرف ان کی ہدایت کی۔

وَ اٰتَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً ؕ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۲۲﴾ؕ

۱۲۲۔ اور ہم نے دنیا میں انہیں بھلائی دی اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہیں۔

120 تا 122۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیائے کفر کے مقابلے میں ایک ملت کی مانند تھے اور ایک امت کی طرح طاقتور رہے۔ آپ علیہ السلام نے ایک امت کی طرح قیام کیا، ایک امت کی طرح وقت کے طاغوت کا مقابلہ کیا، طاغوت پر فتح حاصل کی اور ایک امت کی طرح انسانیت کی تاریخ کا رخ بدلا۔ وہ اللہ کے فرمانبردار تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ طاقت اللہ کی اطاعت اور طاقت کے سرچشمہ سے گہرے ربط کی وجہ سے ملی۔

یکسو ہونے والا: وہ تمام غیر اللہ سے منقطع ہو کر یکسوئی کے ساتھ صرف اللہ کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اسی پر تکیہ کرتے تھے۔ غیر اللہ سے منقطع ہونے کی صورت میں ہی اللہ پر کامل بھروسا ہو سکتا ہے اور اگر کوئی غیر اللہ پر بھروسا کرتا ہے تو اللہ اس کو اسی غیر اللہ پر چھوڑتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے عقائد اور کردار میں شرک اور غیر اللہ کی طرف توجہ کرنے کا شائبہ تک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ مقام شکر پر فائز ہونا حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے خلیل الرحمن کے لیے بھی اہم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شکر نعمت قولاً و عملًا کس قدر عند اللہ قابل قدر عمل ہے۔

درج بالا اوصاف کے حامل ہونے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان عنایتوں سے نوازا گیا: i۔ ان کو برگزیدہ کیا ii۔ ان کو صراط مستقیم کی رہنمائی کی iii۔ دنیا میں بھی ان کو حسنات سے نوازا اور آخرت میں بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیک اعمال کے اثرات اس زندگی پر بھی مترتب ہوتے ہیں۔

ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ (اے رسول) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسوئی کے ساتھ ملت ابراہیمی کی پیروی کریں اور ابراہیم مشرکین میں سے نہ تھے۔

اِنَّمَا جُعِلَ السَّبۡتُ عَلَی الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَیَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ سبت (کا احترام ) ان لوگوں پر لازم کیا گیا تھا جنہوں نے اس بارے میں اختلاف کیا اور آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے۔

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

125۔ دعوت الی الحق دو بنیادوں پر استوار ہے: ایک حکمت اور دوسری موعظہ حسنہ۔ حکمت یعنی حقائق کا صحیح ادراک۔ لہٰذا حکمت کے ساتھ دعوت دینے سے مراد دعوت کا وہ اسلوب ہو سکتا ہے جس سے مخاطب پر حقائق آشکار ہونے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ دعوت کو حکیمانہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی ذہنی و فکری صلاحیت، نفسیاتی حالت، اس کے عقائد و نظریات اور ماحول و عادات کو مدنظر رکھا جائے۔ موقع و محل اور مقتضی حال کے مطابق بات کی جائے کہ مخاطب کو کون سی دلیل متاثر کر سکتی ہے اور اس بات پر بھی توجہ ہو کہ ہر بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی بلکہ ہر حق بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی۔ جیسا کہ ہر دوائی سے ہر مرض کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ ہر صحیح علاج بھی ہر مریض کے لیے مناسب نہیں۔ اگر مریض کا معدہ اس دوائی کو ہضم کرنے کے قابل نہ ہو۔ جیسا کہ رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تبلیغ اسلام میں تدریجی حکمت عملی اختیار فرمائی اور شروع میں صرف قولوا لاَ اِلہ اِلا اللہ تفلحوا پر اکتفا فرمایا۔ چونکہ یہ حکیمانہ تقاضوں کے منافی تھا کہ نظام شریعت کے تمام احکام بہ یک وقت تبلیغ اور نافذ کیے جاتے۔

الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ : موعظہ کے ساتھ حسنہ کی قید سے معلوم ہوا کہ موعظہ غیر حسنہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دعوت میں ہر قسم کا موعظہ درکار نہیں ہے۔ مثلاً وہ موعظہ جس میں واعظ اپنی بڑائی دکھانا چاہتا ہے، مخاطب کو حقیر سمجھتا ہے یا صرف سرزنش پر اکتفا کرتا ہے۔ موعظہ حسنہ کے لیے سب سے پہلے خود واعظ کا اس موعظہ کا پابند ہونا ضروری ہے، ورنہ اس کا موعظہ موثر نہ ہو گا، بلکہ ایسا کرنا قابل سرزنش ہے۔

وَ اِنۡ عَاقَبۡتُمۡ فَعَاقِبُوۡا بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ لَئِنۡ صَبَرۡتُمۡ لَہُوَ خَیۡرٌ لِّلصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۲۶﴾

۱۲۶۔ اور اگر تم بدلہ لینا چاہو تو اسی قدر بدلہ لو جس قدر تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اگر تم نے صبر کیا تو یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے۔

وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا تَکُ فِیۡ ضَیۡقٍ مِّمَّا یَمۡکُرُوۡنَ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔ اور آپ صبر کریں اور آپ کا صبر صرف اللہ کی مدد سے ہے اور ان (مشرکین) کے بارے میں حزن نہ کریں اور نہ ہی ان کی مکاریوں سے تنگ ہوں۔

اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ﴿۱۲۸﴾٪

۱۲۸۔ اللہ یقینا تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے۔