آیات 112 - 113
 

وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرۡیَۃً کَانَتۡ اٰمِنَۃً مُّطۡمَئِنَّۃً یَّاۡتِیۡہَا رِزۡقُہَا رَغَدًا مِّنۡ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتۡ بِاَنۡعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الۡجُوۡعِ وَ الۡخَوۡفِ بِمَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ اور اللہ ایسی بستی کی مثال دیتا ہے جو امن سکون سے تھی، ہر طرف سے اس کا وافر رزق اسے پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمات کی ناشکری شروع کی تو اللہ نے ان کی حرکتوں کی وجہ سے انہیں بھوک اور خوف کا ذائقہ چکھا دیا۔

وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡہُمۡ فَکَذَّبُوۡہُ فَاَخَذَہُمُ الۡعَذَابُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور بتحقیق ان کے پاس خود انہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیں عذاب نے اس حال میں آ لیا کہ وہ ظالم تھے۔

شان نزول: ممکن ہے اس بستی کا ذکر بعنوان مثال ہو اور ابن عباس کی روایت کے مطابق اس بستی سے مراد مکہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد کئی سالوں تک ان پر قحط چھایا رہا اور ان کے قافلوں پر اکثر حملے ہوتے اور غارت گری ہو جاتی جس سے ان کو ہمیشہ خوف لاحق رہتا تھا۔(مجمع البیان)

تفسیر آیات

کسی شہر یا بستی کے لیے امن اور رزق کی فروانی ہی بنیادی باتیں ہیں جن سے یہ بستی پرسکون اور پرکشش بنتی ہے۔ بظاہر مکہ میں دعوت ابراہیم کے بعد یہ دو باتیں موجود تھیں۔ ہر سال حاجیوں کے ہمراہ ہر طرف سے رزق پہنچتا تھا۔ حرم کعبہ کی وجہ سے ان کو امن و اطمینان بھی نصیب تھا اور اللہ نے ان کی طرف ایک رسول کو نجات دہندہ بنا کر بھیجا جس سے ان پر اللہ کی نعمتیں پوری ہوگئیں مگر ان لوگوں نے ان نعمتوں کی قدردانی نہیں کی تو ان پر قحط اور خوف مسلط ہو گیا۔

سیاق آیات سے جو بات قرین واقع معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس قریہ سے مراد مکہ نہیں ہے، ایک مثال پیش فرمائی ہے جو مکہ پر صادق آتی ہے۔ لہٰذا مکہ مراد نہیں ، مصداق ہے۔

اہم نکات

۱۔ کفران نعمت کی صورت میں نعمتوں کو سلب کرنا سنت الٰہی ہے۔


آیات 112 - 113