وَ اِذَا بَدَّلۡنَاۤ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ ۙ وَّ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُفۡتَرٍ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ اور جب ہم ایک آیت کو کسی اور آیت سے بدلتے ہیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا نازل کرے، یہ لوگ کہتے ہیں: تم تو بس خود ہی گھڑ لاتے ہو، درحقیقت ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

101۔ آیت سے یہاں آیات الاحکام مراد ہیں۔ وقتی مصلحت ختم ہونے پر بعض احکام اٹھائے جاتے ہیں اسے نسخ کہا جاتا ہے۔

قُلۡ نَزَّلَہٗ رُوۡحُ الۡقُدُسِ مِنۡ رَّبِّکَ بِالۡحَقِّ لِیُـثَبِّتَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔کہدیجئے:اسے روح القدس نے آپ کے۔رب کی طرف سے برحق نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کو ثابت (قدم) رکھے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور بشارت (ثابت) ہو۔

102۔ ان نادان لوگوں سے کہ دیجیے کہ قرآن کسی انسان کا ساختہ نہیں ہے، بلکہ روح القدس (پاکیزہ فرشتے) نے بتدریج نازل کیا ہے۔ یہاں وحی لانے والے فرشتے جبرئیل کا نام نہیں لیا اور اس امکان کو رد کرنے کے لیے کہ اس سے کوئی غلطی اور فریب کاری صادر ہو سکتی ہے، اسے روح الامین بھی کہتے ہیں۔

احکام بتدریج نازل کرنے اور مصالح عباد کے ساتھ احکام کو تبدیل و تنسیخ کرنے سے اہل ایمان کی ثابت قدمی اور ایمان میں پختگی آ جاتی ہے، کیونکہ احکام کو وقت کے تقاضوں کے مطابق کرنے سے انسان مطمئن ہوتا ہے کہ قانون گزار کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ اگر ایسا قانون بنائے جو وقت کے تقاضوں کے خلاف ہو تو ایمان میں کمزوری آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تدریج و تنسیخ سے مسلمان ایک تابناک مستقبل اور ایک عظیم کامیابی کے انتظار میں رہتے ہیں، جو ایک مشن کی کامیابی کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔

وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّہُمۡ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ ؕ لِسَانُ الَّذِیۡ یُلۡحِدُوۡنَ اِلَیۡہِ اَعۡجَمِیٌّ وَّ ہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ لوگ (آپ کے بارے میں) کہتے ہیں: اس شخص کو ایک انسان سکھاتا ہے، حالانکہ جس شخص کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن) تو واضح عربی زبان ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ۙ لَا یَہۡدِیۡہِمُ اللّٰہُ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ جو لوگ اللہ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے، یقینا اللہ ان کی ہدایت نہیں کرتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔

اِنَّمَا یَفۡتَرِی الۡکَذِبَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ جھوٹ تو صرف وہی لوگ افترا کرتے ہیں جو اللہ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔

مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لیے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

106۔ یہ آیت عمار، صہیب، بلال اور خباب کے بارے میں نازل ہوئی جن کو مکہ میں اذیتیں دی گئیں۔ عمار کے والد یاسر اور والدہ قتل ہو گئے اور عمار نے وہ کچھ کہ دیا جو کفار ان سے کہلوانا چاہتے تھے۔ کچھ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ عمار کافر ہو گیا: یہ سن کر رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ان عمارا ملیء ایمانا من قرنہ الی قدمہ و اختلط الایمان بلحمہ و دمہ ۔ یعنی عمار سرتاپا ایمان سے سرشار ہے۔ ایمان اس کے گوشت و خون میں رچا بسا ہوا ہے۔ عمار روتے ہوئے رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ان عادوا لک فعد لھم اگر وہ پھر ایسا کرے تو تو بھی دوبارہ ایسا کہ دینا۔ (بحار الانوار 19: 35) تنگ نظر مخالفین کی طرف سے نظریے و عقیدے کی آزادی سلب کرنے کی صورت میں تقیہ کی نوبت آتی ہے، ایسے حالات میں اپنے عقیدے پر قائم رہ کر اپنا بچاؤ کرنا ایک انسانی حق ہے۔ عار و ننگ ان لوگوں کے لیے ہے جو دوسروں کو تقیہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسۡتَحَبُّوا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا عَلَی الۡاٰخِرَۃِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کیا ہے اور اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ سَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور یہی لوگ غافل ہیں۔

لَاجَرَمَ اَنَّہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ لازماً آخرت میں یہی لوگ خسارے میں رہیں گے۔

107 تا 109۔ تمام قوانین میں بغاوت کی سزا سنگین ہوتی ہے کیونکہ بغاوت ایک سنگین جرم ہے، خصوصاً عہد و پیمان کے بعد ہو تو۔ ان آیات میں اسلام سے بغاوت کرنے والوں کے لیے کئی ایک سزاؤں کا ذکر ہے: 1۔ ان کے لیے عظیم عذاب ہے 2۔ ان کو اللہ ہدایت سے نہیں نوازتا 3۔ ان کے دلوں پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ آیت میں مہر لگانے کا سبب، آخرت کے مقابلے میں ان کی حب دنیا کو قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا پرستی سے انسان کے شعور و ادراک پر پردہ پڑ جاتا ہے۔

ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا فُتِنُوۡا ثُمَّ جٰہَدُوۡا وَ صَبَرُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۱۰﴾٪

۱۱۰۔ پھر آپ کا رب یقینا ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر سے کام لیا ان باتوں کے بعد آپ کا رب یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

110۔ سلسلہ کلام ان لوگوں کے بارے میں جاری ہے جو راہ ایمان میں ظلم و ستم سے دو چار ہوئے اور اس جان لیوا آزمائش میں کامیاب ہوئے اور اپنے ایمان پر قائم رہے اور ہجرت اختیار کی۔ ممکن ہے حبشہ کی ہجرت کی طرف اشارہ ہو یا بعد میں رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معیت میں ہونے والی ہجرت کی طرف اشارہ ہو۔ ان تمام مراحل کے بعد یعنی آزمائش میں استقامت، راہ خدا میں مہاجرت، جہاد فی سبیل اللہ اور مشکلات میں صبر اختیار کرے تو اگر کوئی کوتاہی ان سے سرزد ہو جائے تو اللہ بڑا معاف فرمانے والا مہربان ہے۔