رَبِّ قَدۡ اٰتَیۡتَنِیۡ مِنَ الۡمُلۡکِ وَ عَلَّمۡتَنِیۡ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۟ اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ عنایت فرمایا اور ہر بات کے انجام کا علم دیا، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا میں بھی میرا سرپرست ہے اور آخرت میں بھی، مجھے (دنیا سے) مسلمان اٹھا لے اور نیک بندوں میں شامل فرما۔

101۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رب کی بارگاہ میں یہ مناجات عین اس وقت کر رہے ہیں، جب ان کے بھائی سامنے موجود ہیں، جو کل ان کی جان کے دشمن تھے۔ آج یوسف علیہ السلام اپنی کامیابی پر فخر و مباہات کرنے کی بجائے اپنے رب کا شکر بجا لا رہے ہیں۔

ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ۚ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ اَجۡمَعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ وَ ہُمۡ یَمۡکُرُوۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ یہ غیب کی خبروں کا حصہ ہیں جنہیں ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں وگرنہ آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنا عزم پختہ کر کے سازش کر رہے رہے تھے۔

102۔ قصۂ یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ سارے حقائق وحی پر مبنی ہیں ورنہ مکہ جیسے ماحول میں زندگی گزارنے والے کسی شخص کے پاس کسی قسم کے تاریخی ذرائع نہ تھے۔

ممکن ہے کہ کوئی یہ سوال اٹھائے کہ ان حقائق کو بائبل اور دوسری کتب کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو گا۔ جواب یہ ہے کہ قدیم کتابوں مثلا بائبل اور تلمود کا قرآن کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ان کتابوں میں اس قصے کے صرف واقعاتی پہلو ملیں گے، وہ بھی بہت اختلاف کے ساتھ۔ ان میں اس کے روحانی اور رسالتی پہلو کا سرے سے کوئی ذکر نہیں ہے۔

وَ مَاۤ اَکۡثَرُ النَّاسِ وَ لَوۡ حَرَصۡتَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ اور آپ کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہوں ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

103۔ یہودیوں نے رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کی آزمائش کے لیے سوال کیا تھا کہ اس نبی کا حال بتائیے جس کا بیٹا شام سے مصر لے جایا گیا۔ اس پر پورا واقعہ بیان کرنے پر توقع کی جا سکتی تھی کہ اس معجزے کو دیکھ کر وہ ایمان لے آئیں گے، لیکن اس جگہ اللہ فرماتا ہے: خواہ آپ کتنا ہی چاہیں یہ لوگ اب بھی ایمان لانے والے نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ایمان نہ لانا اس لیے نہیں کہ یہاں کوئی معقول دلیل موجود نہیں، نہ ہی ان کے سوال کا یہ مطلب ہے کہ وہ حق جوئی کر رہے ہیں بلکہ وہ تو بہانہ جوئی کر رہے ہیں۔

وَ مَا تَسۡـَٔلُہُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۴﴾٪

۱۰۴۔اور (حالانکہ)آپ اس بات پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے اور یہ (قرآن) تو عالمین کے لیے بس ایک نصیحت ہے۔

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ یَمُرُّوۡنَ عَلَیۡہَا وَ ہُمۡ عَنۡہَا مُعۡرِضُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ بغیر اعتنا کے گزر جاتے ہیں۔

وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لائے بھی ہیں تو اس کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔

اَفَاَمِنُوۡۤا اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ غَاشِیَۃٌ مِّنۡ عَذَابِ اللّٰہِ اَوۡ تَاۡتِیَہُمُ السَّاعَۃُ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔کیا یہ لوگ اس بات سے بے فکر ہیں کہ اللہ کی طرف سے کوئی عذاب انہیں گھیر لے یا ناگہاں قیامت کی گھڑی آ جائے اور انہیں خبر تک نہ ہو؟

107۔ ایمان اور شرک کے مراتب ہیں۔ بہت سے لوگوں کا ایمان شرک کے ساتھ آمیختہ ہوتا ہے۔ حدیث نبوی ہے: اِنَّ الشِّرْکَ اَخْفَی مِنْ دَبِیبِ النَّمْلِ ۔ (وسائل الشیعۃ 16: 254) تمہارے اندر شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ طور پر موجود ہے۔

قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔کہدیجئے:یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاکیزہ ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

108۔ اس دعوت کا خاصہ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ ہے۔ یعنی اس کی بنیاد یقین و بصیرت پر ہے، لہٰذا پیروکاروں میں جو لوگ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ کے درجہ پر فائز ہیں، وہ اس دعوت میں شریک ہیں۔ واضح رہے تبلیغ اور دعوت اصولی اور ابتدائی طور پر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داری ہے۔ اس مرحلے میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، البتہ سورئہ برائت کی تبلیغ کے سلسلہ میں ایک موقع ایسا آیا کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تبلیغ کا کام انجام نہیں دے سکتے تھے، اس لیے حضرت علی علیہ السلام کو رجل منک کے عنوان سے رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد مَنِ اتَّبَعَنِیۡ کی منزل پر فائز کر دیا اور سورۃ برائت کی ابتدائی تبلیغ فرمائی۔

رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے تبلیغ عمل میں آنے کے بعد ہر وہ ہستی جو عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ کے مقام پر فائز ہو دعوت الی اللہ کی ذمہ داری انجام دے سکتی ہے۔ لہٰذا دعوت الی اللہ کے دو ارکان ہیں: اتباع رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بصیرت و یقین۔ چنانچہ حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل 1:285 میں، شہاب الدین شافعی نے توضیح الدلائل قلمی نسخہ ص 161 میں اور کلینی نے کافی میں اس روایت کا ذکر کیا ہے کہ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

دعوت الی اللہ کے پیچھے اگر یقین محکم جیسی طاقت نہیں ہے تو مشکلات اور صبر شکن مصائب کا انسان مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مشکلات اس قدر سنگین اور مصائب و آلام اتنے طویل ہوتے ہیں اور داعیان الی الحق کو اس حد تک ستایا جاتا ہے کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی چیخ اٹھتے ہیں کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ (بقرۃ:214)۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی ؕ اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ وَ لَدَارُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ اور آپ سے پہلے ہم ان بستیوں میں صرف مردوں ہی کو بھیجتے رہے ہیں جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے، تو کیا یہ لوگ روئے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا؟ اور اہل تقویٰ کے لیے تو آخرت کا گھر ہی بہتر ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ قَدۡ کُذِبُوۡا جَآءَہُمۡ نَصۡرُنَا ۙ فَنُجِّیَ مَنۡ نَّشَآءُ ؕ وَلَا یُرَدُّ بَاۡسُنَا عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ یہاں تک کہ جب انبیاء (لوگوں سے) مایوس ہو گئے اور لوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو پیغمبروں کے لیے ہماری نصرت پہنچ گئی، اس کے بعد جسے ہم نے چاہا اسے نجات مل گئی اور مجرموں سے تو ہمارا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔

110۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تسکین قلب اور فتح و نصرت کے لیے اللہ کی سنت جاریہ کا ذکر ہے۔ دعوت الی اللہ کے لیے یقین و برہان جیسی مضبوط اور محکم اساس اس لیے درکار ہوتی ہے کہ یہ کام کوئی ایسا آسان کھیل نہیں کہ ہر شخص اسے انجام دے سکے اور تھوڑی سی مشقت پر اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکے۔

لَقَدۡ کَانَ فِیۡ قَصَصِہِمۡ عِبۡرَۃٌ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ؕ مَا کَانَ حَدِیۡثًا یُّفۡتَرٰی وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۱۱﴾٪

۱۱۱۔ بتحقیق ان (رسولوں) کے قصوں میں عقل رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے، یہ (قرآن) گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ اس سے پہلے آئے ہوئے کلام کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل (بتانے والا) ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔