ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ۚ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ اَجۡمَعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ وَ ہُمۡ یَمۡکُرُوۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ یہ غیب کی خبروں کا حصہ ہیں جنہیں ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں وگرنہ آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنا عزم پختہ کر کے سازش کر رہے رہے تھے۔

102۔ قصۂ یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ سارے حقائق وحی پر مبنی ہیں ورنہ مکہ جیسے ماحول میں زندگی گزارنے والے کسی شخص کے پاس کسی قسم کے تاریخی ذرائع نہ تھے۔

ممکن ہے کہ کوئی یہ سوال اٹھائے کہ ان حقائق کو بائبل اور دوسری کتب کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو گا۔ جواب یہ ہے کہ قدیم کتابوں مثلا بائبل اور تلمود کا قرآن کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ان کتابوں میں اس قصے کے صرف واقعاتی پہلو ملیں گے، وہ بھی بہت اختلاف کے ساتھ۔ ان میں اس کے روحانی اور رسالتی پہلو کا سرے سے کوئی ذکر نہیں ہے۔