حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ قَدۡ کُذِبُوۡا جَآءَہُمۡ نَصۡرُنَا ۙ فَنُجِّیَ مَنۡ نَّشَآءُ ؕ وَلَا یُرَدُّ بَاۡسُنَا عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ یہاں تک کہ جب انبیاء (لوگوں سے) مایوس ہو گئے اور لوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو پیغمبروں کے لیے ہماری نصرت پہنچ گئی، اس کے بعد جسے ہم نے چاہا اسے نجات مل گئی اور مجرموں سے تو ہمارا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔

110۔ رسول کریم ﷺ کی تسکین قلب اور فتح و نصرت کے لیے اللہ کی سنت جاریہ کا ذکر ہے۔ دعوت الی اللہ کے لیے یقین و برہان جیسی مضبوط اور محکم اساس اس لیے درکار ہوتی ہے کہ یہ کام کوئی ایسا آسان کھیل نہیں کہ ہر شخص اسے انجام دے سکے اور تھوڑی سی مشقت پر اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکے۔