آیت 108
 

قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔کہدیجئے:یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاکیزہ ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ: اے رسول، کہہ دیجیے خدائے واحد کی طرف دعوت دینا ہی میرا راستہ ہے۔ اس دعوت کا خاصہ یہ ہے کہ یہ دعوت علی بصیرۃ ہے۔ یقین و معرفت کی بنیاد پر ہے۔ کسی مصلحت و تقلید کی بنیاد پر نہیں ہے کیونکہ یہ دین فکر و عقل اور دلیل و برہان کا دین ہے اور پیروکاروں میں جو لوگ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ ہیں وہ بھی اس دعوت میں شریک ہیں۔

واضح رہے کہ تبلیغ و دعوت اصالتاً و ابتداء رسول اللہ کی ذمے داری ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ اس مرحلے میں رسول کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہوتا۔ یہ صرف رسول اللہ کی ذمے داری ہے۔ البتہ سورۂ برائت کی تبلیغ کے سلسلہ میں ایک موقع ایسا آیا اس مرحلے میں خود رسول اللہ (ص) یہ تبلیغ نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے حضرت علی علیہ السلام کو رجل منک کے عنوان سے رسول اسلام ؐکے بعد مَنِ اتَّبَعَنِیۡ کے مقام پر فائز کر دیا اور سورہ برائت کی ابتدائی تبلیغ فرمائی۔

رسول اللہؐ کی طرف سے تبلیغ ہونے کے بعد اس دعوت و تبلیغ کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ اس مرحلے میں دعوت و ارشاد کے لیے ہر وہ ہستی جو عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ کے مقام پر فائز ہو، دعوت الی اللہ کے منصب پر بھی فائز ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس دعوت کے دو ارکان ہیں :

i۔ اتباع رسولؐ: اس میں وہ شخص شامل نہیں ہے جو بظاہر اسلام قبول کرتا ہے اور ساتھ شرک کی بھی آمیزش ہے بلکہ وہ شخص اس میں شامل ہے جس نے اتباع کا حق ادا کیا ہو۔

ii۔ بصیرت و یقین: اگر داعی حق خود یقین کی منزل پر فائز نہ ہو تو وہ دوسروں کو صحیح معنوں میں دعوت نہیں دے سکتا۔

حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل ۱: ۲۸۵، شہاب الدین شافعی نے توضیح الدلائل (قلمی نسخہ) ص۱۶۱ ( المظفر دلائل الصدق ۲: ۲۵۳)، کلینی نے الکافی میں اس روایت کا ذکر کیا ہے کہ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی دعوت بصیرت و یقین پر قائم ہے۔

۲۔ اسلامی قیادت کے لیے وہ ہستی قابل قبول ہے جو علی بصیرۃ ہو۔


آیت 108