آیات 103 - 104
 

وَ مَاۤ اَکۡثَرُ النَّاسِ وَ لَوۡ حَرَصۡتَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ اور آپ کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہوں ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

وَ مَا تَسۡـَٔلُہُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۴﴾٪

۱۰۴۔اور (حالانکہ)آپ اس بات پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے اور یہ (قرآن) تو عالمین کے لیے بس ایک نصیحت ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَاۤ اَکۡثَرُ النَّاسِ: یہودیوں نے حضورؐ کی نبوت کی آزمائش کے لیے سوال کیا تھا کہ اس نبی کا حال بتائیے جو شام میں رہتے تھے اور ان کا بیٹا مصر لے جایا گیا تو وہ نبی اس پر اتنا روئے کہ آنکھیں نابینا ہو گئیں۔ ( تفسیر قرطبی ۹: ۱۳۰)

اس سوال کے جواب میں جب پورا واقعہ بیان کر دیا گیا تو یہ توقع کرنا قرین حق معلوم ہوتا ہے کہ اس معجزہ کو دیکھ کر وہ ایمان لے آئیں گے۔ اس جگہ اللہ فرماتا ہے: خواہ آپ کتنا ہی چاہیں ، یہ لوگ اب بھی ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

۲۔ وَ مَا تَسۡـَٔلُہُمۡ عَلَیۡہِ: کیونکہ ان کا ایمان نہ لانا اس لیے نہ تھا کہ وہ کسی معقول دلیل کے انتظار میں ہیں بلکہ وہ ہر صورت میں ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر وہ کوئی سوال کرتے ہیں تو اس کا مقصد حق جوئی نہیں بلکہ بہانہ جوئی ہوتا ہے۔ ورنہ اس دعوت میں کوئی دنیاوی مفاد نہیں ہے، نہ ہی یہ دعوت کسی خاص خطے اور قوم و قبیلے کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ یہ تو تمام عالمین کے لیے ایک نصیحت ہے۔

اہم نکات

۱۔ رسول خداؐ انسانوں کی نجات کے لیے شدید خواہشمند تھے: وَ لَوۡ حَرَصۡتَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔دعوت حق کاروبار نہیں ، حق تک پہنچانا مقصد ہے: وَ مَا تَسۡـَٔلُہُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ۔۔۔۔


آیات 103 - 104