قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔کہدیجئے:یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاکیزہ ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

108۔ اس دعوت کا خاصہ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ ہے۔ یعنی اس کی بنیاد یقین و بصیرت پر ہے، لہٰذا پیروکاروں میں جو لوگ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ کے درجہ پر فائز ہیں، وہ اس دعوت میں شریک ہیں۔ واضح رہے تبلیغ اور دعوت اصولی اور ابتدائی طور پر رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری ہے۔ اس مرحلے میں رسول ﷺ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، البتہ سورئہ برائت کی تبلیغ کے سلسلہ میں ایک موقع ایسا آیا کہ رسول اللہ ﷺ خود تبلیغ کا کام انجام نہیں دے سکتے تھے، اس لیے حضرت علی علیہ السلام کو رجل منک کے عنوان سے رسول اسلام ﷺ کے بعد مَنِ اتَّبَعَنِیۡ کی منزل پر فائز کر دیا اور سورۃ برائت کی ابتدائی تبلیغ فرمائی۔

رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تبلیغ عمل میں آنے کے بعد ہر وہ ہستی جو عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ کے مقام پر فائز ہو دعوت الی اللہ کی ذمہ داری انجام دے سکتی ہے۔ لہٰذا دعوت الی اللہ کے دو ارکان ہیں: اتباع رسول ﷺ اور بصیرت و یقین۔ چنانچہ حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل 1:285 میں، شہاب الدین شافعی نے توضیح الدلائل قلمی نسخہ ص 161 میں اور کلینی نے کافی میں اس روایت کا ذکر کیا ہے کہ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

دعوت الی اللہ کے پیچھے اگر یقین محکم جیسی طاقت نہیں ہے تو مشکلات اور صبر شکن مصائب کا انسان مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مشکلات اس قدر سنگین اور مصائب و آلام اتنے طویل ہوتے ہیں اور داعیان الی الحق کو اس حد تک ستایا جاتا ہے کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی چیخ اٹھتے ہیں کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ (بقرۃ:214)۔