آیت 101
 

رَبِّ قَدۡ اٰتَیۡتَنِیۡ مِنَ الۡمُلۡکِ وَ عَلَّمۡتَنِیۡ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۟ اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ عنایت فرمایا اور ہر بات کے انجام کا علم دیا، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا میں بھی میرا سرپرست ہے اور آخرت میں بھی، مجھے (دنیا سے) مسلمان اٹھا لے اور نیک بندوں میں شامل فرما۔

تفسیر آیات

۱۔ رَبِّ قَدۡ اٰتَیۡتَنِیۡ مِنَ الۡمُلۡکِ: حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رب کی بارگاہ میں یہ مناجات عین اس وقت کر رہے ہیں کہ ان کے وہ بھائی سامنے سرجھکائے کھڑے ہیں جو کل ان کی جان کے پیاسے تھے۔ آج یوسف علیہ السلام اپنے تخت اقتدار پر متمکن ہیں لیکن اپنی اس عظیم کامیابی پر فخر و مباہات کرنے کی جگہ اپنے رب کی بارگاہ میں اس عظیم نعمت کا شکر بجالاتے ہیں۔ وہ شکایت کی جگہ شکر، ملامت کی جگہ اللہ کے احسان، فخر و مباہات کی جگہ، اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں۔

۲۔ اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ: اور اپنے حاسدوں کے بارے میں بد دعا کرنے کی جگہ اپنے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور اپنی بڑائی ظاہر کرنے کی جگہ اللہ کی ولایت مطلقہ کا ذکر کرتے ہیں۔

۳۔ تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا: انجام بخیر ہونے کی دعا انبیاء (ع) بھی کرتے ہیں۔چونکہ حسن عاقبت نہایت اہم ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص پوری زندگی اسلام پر قائم رہے لیکن موت کے وقت کے اضطراب میں شیطان کا ہو کر مر جائے۔ اگرچہ انبیاء (ع) کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے لیکن اسلام کی حالت میں خاتمہ بخیر ہونے کی دعا سے انبیاء (ع) غافل نہیں رہتے۔

اہم نکات

۱۔ حاسدوں پر فتح ملنے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ ان کی ملامت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس فتح پر اللہ کے احسانات کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

۲۔ ہر کامیابی کی صورت میں بارگاہ الٰہی میں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔


آیت 101