آیت 105
 

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ یَمُرُّوۡنَ عَلَیۡہَا وَ ہُمۡ عَنۡہَا مُعۡرِضُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ بغیر اعتنا کے گزر جاتے ہیں۔

تفسیر آیات

قصہ یوسف علیہ السلام میں موجود ان زندہ نشانیوں سے چشم پوشی کرنا تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہ تو ان واضح اور صریح نشانیوں کو بھی اعتنا میں نہیں لاتے جو شب و روز ان کے مشاہدے میں آتی ہیں۔ آفاقی آیات میں یہ لوگ غور و خوض کرتے ہیں اور نہ انفس کی تہ بہ تہ نشانیوں کی طرف توجہ کرتے ہیں بلکہ ان سے بڑی بے اعتنائی کے ساتھ گزر جاتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی نشانی نہیں سمجھتے بلکہ ان کو روز کا معمول سمجھتے ہیں ، ورنہ ایمان والوں کو ان میں سے ہر ایک میں اللہ نظر آتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن کائنات کی ہر چیز میں غور و فکر کرتا ہے۔

۲۔ نظام کائنات کی وحدت، اس کے خالق کی وحدت پر دلیل ہے۔


آیت 105