قَالُوۡا تَاللّٰہِ لَقَدۡ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَ اِنۡ کُنَّا لَخٰطِئِیۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ انہوں نے کہا: قسم بخدا! اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور ہم ہی خطاکار تھے۔

قَالَ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ؕ یَغۡفِرُ اللّٰہُ لَکُمۡ ۫ وَ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔ یوسف نے کہا: آج تم پر کوئی عتاب نہیں ہو گا، اللہ تمہیں معاف کر دے گا اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے

92۔ بھائیوں نے جرم کا اعتراف کیا تو صاحب فضیلت حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے فضل کا ثبوت فراہم کیا۔ چنانچہ اس اعتراف کے جواب میں فرمایا: لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ۔ آج تم پر کوئی عتاب نہیں ہو گا۔ رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی فتح مکہ کے موقع پر اپنے جانی دشمنوں سے درگزر فرماتے ہوئے یہی جملہ دہرایا: لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ۔

اِذۡہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقُوۡہُ عَلٰی وَجۡہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ وَ اۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ یہ میرا کرتا لے جاؤ پھر اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو تو ان کی بصارت لوٹ آئے گی اور تم اپنے تمام اہل و عیال کو میرے پاس لے آنا۔

93۔حضرت یوسف علیہ السلام جانتے تھے کہ بھائیوں نے خون آلود قمیص والد کے سامنے پیش کی تھی، جس نے والد کو غمگین کیا تھا، سو آج قمیص کے ذریعے ہی ان کو خوشخبری دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا : میری یہ قمیص وہی شخص میرے والد کے پاس لے جائے جس نے میری خون آلود قمیص والد کے سامنے پیش کی تھی تاکہ جس نے میرے والد کو غمگین کیا وہی انہیں خوشخبری بھی دے۔

وَ لَمَّا فَصَلَتِ الۡعِیۡرُ قَالَ اَبُوۡہُمۡ اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ﴿۹۴﴾

۹۴۔ اور جب یہ قافلہ (مصر کی سرزمین سے) دور ہوا تو ان کے باپ نے کہا: اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ سمجھو تو یقینا مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔

94۔ ممکن ہے یہ خوشبو حسی قوت شامہ سے نہیں، بلکہ مشام ماروائے حس سے درک کی ہو جو انبیاء کے لیے بعید نہیں ہے۔

قَالُوۡا تَاللّٰہِ اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الۡقَدِیۡمِ ﴿۹۵﴾ ۞ٙ

۹۵۔ لوگوں نے کہا: قسم بخدا! آپ اپنے اسی پرانے خبط میں (مبتلا) ہیں۔

فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِیۡرُ اَلۡقٰىہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ ۚۙ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔ پھر جب بشارت دینے والا آیا تو اس نے یوسف کا کرتا یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو وہ دفعتاً بینا ہو گئے، کہنے لگے: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟

96۔ بصارت یعقوب علیہ السلام کا عود کر آنا عام طبیعی دستور کے مطابق نہیں ہو سکتا، کیونکہ طبیعی طور پر علاج کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یوسف علیہ السلام کا کرتا منہ پر ڈالا جانا آنکھوں کی بصارت کے لیے طبیعی علاج ہرگز نہیں ہے، نہ اس فرط مسرت سے بصارت واپس آ سکتی ہے، بلکہ یہ صرف اعجاز کی صورت ہے جس سے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام آگاہ تھے۔

قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا اسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَاۤ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ بیٹوں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دعا کیجیے، ہم ہی خطاکار تھے۔

97۔ اولاد یعقوب علیہ السلام خطا کار سہی، لیکن خاندان نبوت کے افراد ہیں اور ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں۔ آداب بندگی سے واقف ہیں کہ اپنے گناہوں کی مغفرت کے لیے، رسول خدا، اپنے والد بزگوار کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ سے طلب عفو کے لیے انہیں وسیلہ بناتے ہیں۔

قَالَ سَوۡفَ اَسۡتَغۡفِرُ لَکُمۡ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۹۸﴾

۹۸۔ (یعقوب نے) کہا: عنقریب میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروںگا، وہ یقینا بڑا بخشنے والا،مہربان ہے

98۔ حضرت یعقوب علیہ السلام بالفور دعا نہیں فرماتے، بلکہ عنقریب دعا کرنے کا وعدہ فرماتے ہیں۔

فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰی یُوۡسُفَ اٰوٰۤی اِلَیۡہِ اَبَوَیۡہِ وَ قَالَ ادۡخُلُوۡا مِصۡرَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ﴿ؕ۹۹﴾

۹۹۔جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھایا اور کہا : اللہ نے چاہا تو امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو جائیے۔

99۔ برسوں کی جدائی اور یوسف علیہ السلام پر ایک زندگی گریہ و زاری کے بعد یہ ملاقات کس قدر رقت آمیز ہوئی ہو گی۔ مصر میں داخل ہو جائیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کے استقبال کے لیے مصر یا شہر کی حدود سے نکل آئے تھے۔اس طرح آویٰ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یوسف اپنے والدین کے گلے لپٹے۔ چنانچہ اس استقبال کا ذکر توریت میں بھی ملتا ہے۔

وَ رَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الۡعَرۡشِ وَ خَرُّوۡا لَہٗ سُجَّدًا ۚ وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ ہٰذَا تَاۡوِیۡلُ رُءۡیَایَ مِنۡ قَبۡلُ ۫ قَدۡ جَعَلَہَا رَبِّیۡ حَقًّا ؕ وَ قَدۡ اَحۡسَنَ بِیۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِیۡ مِنَ السِّجۡنِ وَ جَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّیۡطٰنُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَ اِخۡوَتِیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ اور یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب ان کے آگے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا:اے ابا جان! یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا، بتحقیق میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا اور اس نے سچ مچ مجھ پر احسان کیا جب مجھے زندان سے نکالا بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈالا آپ کو صحرا سے (یہاں) لے آیا، یقینا میرا رب جو چاہتا ہے اسے تدبیر خفی سے انجام دیتا ہے، یقینا وہی بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

100۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے والدین کو تخت پر بٹھایا۔ تخت سے مراد تخت حکومت لیا جائے تو اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یوسف علیہ السلام مصر کے تخت نشین بادشاہ بن گئے تھے، لیکن ممکن ہے تخت شاہی نہ ہو، کیونکہ قرآن یوسف علیہ السلام کو عزیز کہتا ہے اور ساتھ بادشاہ کا بھی ذکر آتا ہے۔ تاریخ نے بھی مصری بادشاہوں کے سلسلے میں یوسف علیہ السلام کا ذکر نہیں کیا ہے۔

سجدے سے مراد ایک قسم کی تعظیم ہے، جو ذرا زمین کی طرف جھک کر بجا لائی جاتی تھی۔ یہ زمین پر پیشانی رکھنے والا سجدہ نہیں ہے۔