وَ قَالَ الَّذِی اشۡتَرٰىہُ مِنۡ مِّصۡرَ لِامۡرَاَتِہٖۤ اَکۡرِمِیۡ مَثۡوٰىہُ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا ؕ وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوۡسُفَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ وَ لِنُعَلِّمَہٗ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ؕ وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰۤی اَمۡرِہٖ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور مصر کے جس آدمی نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا: اس کا مقام معزز رکھنا، ممکن ہے کہ وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں تمکنت دی اور اس لیے بھی کہ ہم انہیں خوابوں کی تعبیر کی تعلیم دیں اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

21۔ بائبل کے مطابق یہ شخص شاہی گارڈ کا آفیسر تھا۔ قرآن مجید اس خریدنے والے کو عزیز کہتا ہے اور ایک جگہ قرآن نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی عزیز کہا ہے جب آپ علیہ السلام اقتدار پر تھے۔ خریدنے والے نے سمجھ لیا تھا کہ یوسف غلام نہیں بلکہ کسی اہم خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ اس لیے اکرمیہ ”اسے معزز رکھنا“ نہیں کہا بلکہ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىہُ ”اس کا مقام معزز رکھنا“ کہا، ورنہ غلاموں کا کوئی احترام نہیں کیا جاتا۔

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗۤ اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کی اور ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں۔

22۔ اس جگہ اشدّ سے مراد رشد و جوانی ہو سکتا ہے چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کم عمری میں مصر پہنچے تھے اور بنا بر بعض روایات سترہ سال کی عمر میں مصر پہنچے۔ دو یا تین سال عزیز مصر کے گھر رہے اور چند سال زندان میں۔ اسی اثنا میں آپ علیہ السلام رشد کو پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں عنایت فرمائیں: 1۔ حُکۡمًا ، حکمت سے مراد ان امور میں فیصلہ کن بینش ہے جن میں لوگ نادانی کی وجہ سے اختلاف کرتے ہیں۔2۔ عِلۡمًا : علم سے مراد وہ علم لدنی ہے جو استاد کے بغیر اللہ تعالیٰ یوسف علیہ السلام جیسی پاکیزہ ہستیوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ ہر وہ شخص جو نیکی و پاکدامنی میں یوسف علیہ السلام کے مرتبے کو پہنچے اسے بھی حکم اور علم سے نوازتا ہے۔

وَ رَاوَدَتۡہُ الَّتِیۡ ہُوَ فِیۡ بَیۡتِہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ وَ غَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ وَ قَالَتۡ ہَیۡتَ لَکَ ؕ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبِّیۡۤ اَحۡسَنَ مَثۡوَایَ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھے اس نے انہیں اپنے ارادے سے منحرف کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور سارے دروازے بند کر کے کہنے لگی: آ جاؤ، یوسف نے کہا: پناہ بخدا! یقینا میرے رب نے مجھے اچھا مقام دیا ہے، بے شک اللہ ظالموں کو کبھی فلاح نہیں دیتا۔

23۔ ایک طرف ملک کی شہزادی، گھر کی ملکہ، خلوت، افشا کا خوف نہیں، سارے دروازے بند ہیں اور ہَیۡتَ لَکَ کہ کر دعوت آمیزش دی جا رہی ہے، اب کوئی رکاوٹ نہیں، یوسف علیہ السلام کا عالم شباب ہے اور شہوانی جنون کی عمر ہے۔ ایسے ماحول میں یوسف علیہ السلام کا جواب تھا: مَعَاذَ اللّٰہِ (خدا کی پناہ)۔ اس جوان صالح نے اس ذات کا سہارا لیا جس نے اسے ممتاز مقام دیا۔ واضح رہے کہ رَبِّیۡۤ سے مراد عزیز مصر نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے لکھا ہے۔ چونکہ بعید ہے حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کو ”میرا رب“ کہیں اور یہ بھی بعید ہے کہ اپنے دامن کو پاک رکھنے کا محرک یہ ہو کہ اس عورت کے شوہر نے اسے اچھا مقام دیا ہے۔

وَ لَقَدۡ ہَمَّتۡ بِہٖ ۚ وَ ہَمَّ بِہَا لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ ؕ کَذٰلِکَ لِنَصۡرِفَ عَنۡہُ السُّوۡٓءَ وَ الۡفَحۡشَآءَ ؕ اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُخۡلَصِیۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ چکے ہوتے، اس طرح ہوا تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں، کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔

24۔ بُرۡہَانَ اس یقینی کیفیت کا نام ہے جس کے بعد انبیاء یقین کی اس منزل پر فائز ہو جاتے ہیں جہاں کسی قسم کے شک و تردد کی گنجائش نہیں رہتی اور یقین کی اس منزل سے عصمت شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ برگزیدہ بندوں کو برہان دیا جاتا ہے اور جن کو برہان ملتا ہے وہ معصوم ہوا کرتے ہیں۔

وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ ؕ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا اِلَّاۤ اَنۡ یُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۲۵﴾

۲۵۔ دونوں دروازے کی طرف دوڑ پڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھاڑ دیا اتنے میں دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا، عورت کہنے لگی: جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے؟

قَالَ ہِیَ رَاوَدَتۡنِیۡ عَنۡ نَّفۡسِیۡ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ یوسف نے کہا:یہ عورت مجھے اپنے ارادے سے پھسلانا چاہتی تھی اور اس عورت کے خاندان کے کسی فرد نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا کرتہ آگے سے پھٹا ہے تو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹا ہے۔

وَ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے۔

فَلَمَّا رَاٰ قَمِیۡصَہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ ؕ اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔جب اس نے دیکھا کہ کرتہ تو پیچھے سے پھٹا ہے (تو اس کے شوہر نے) کہا: بے شک یہ (سب) تم عورتوں کی فریب کاری ہے، تم عورتوں کی فریب کاری تو بہت بھاری ہوتی ہے۔

28۔ واقعہ کی حقیقت حال کا عینی نہ سہی لیکن عقلی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کرتہ آگے سے پھٹا ہے تو اقدام یوسف علیہ السلام کی طرف سے ہوا ہو گا اور مدافعت عورت کی طرف سے ہوئی ہو گی اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو تو یوسف علیہ السلام بچ نکلنا چاہتے تھے اور عورت نے تعاقب کیا ہو گا۔ حالات کی شہادت حضرت یوسف علیہ السلام کے حق میں تھی۔ اس لیے شوہر نے بادی الرائے میں اپنی بیوی کو مجرم قرار دے کر کہا : تم عورتوں کی فریب کاری عظیم ہوتی ہے۔ لیکن قدیم سے مراعات یافتہ طبقے ہمیشہ اپنے گھروں میں ہونے والے جنسی سکینڈلوں کا الزام دوسروں پر ڈالتے رہے ہیں۔

اس آیہ شریفہ سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:٭ جو دنیا کی رسوائیوں سے بھاگ نکلتا ہے وہ کسی بھی دروازے پر رسوا نہیں ہوتا۔ ٭کسی کا دامن عفت چاک نہ کر ورنہ اپنا دامن چاک ہو جائے گا: وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ ۔ ٭ مخالف فریق سے بھی حق کو حمایت مل سکتی ہے: شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا ٭ جنسی معاملات میں عورت کی فریب کاری عظیم ہوتی ہے: اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ ۔

یُوۡسُفُ اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَا ٜ وَ اسۡتَغۡفِرِیۡ لِذَنۡۢبِکِ ۚۖ اِنَّکِ کُنۡتِ مِنَ الۡخٰطِئِیۡنَ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ یوسف اس معاملے سے درگزر کرو اور (اے عورت) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، بیشک تو ہی خطاکاروں میں سے تھی۔

29۔ اس معاملے سے درگزر کر۔ یعنی اسے افشا نہ کر اور نہ کسی سے اس کا ذکر کر۔ اس نے اپنی زوجہ سے کہا: تو اپنے گناہ کی معافی مانگ۔ کہتے ہیں مصری لوگ اگرچہ بت پرست تھے، تاہم وہ اللہ کے وجود کے قائل تھے، پرستش بتوں کی کرتے تھے کیونکہ وہ انہیں وسیلہ سمجھتے تھے اور ممکن ہے مطلب یہ ہو کہ وہ جس کے سامنے اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتی تھی، اس سے معافی مانگے، وہ خدا ہو یا بت۔

وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ ۚ قَدۡ شَغَفَہَا حُبًّا ؕ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کیا: عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس کے ارادے سے پھسلانا چاہتی ہے، اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر چکی ہے، ہم تو اسے یقینا صریح گمراہی میں دیکھ رہی ہیں۔

30۔ یوسف علیہ السلام کے ساتھ معاشقہ کا معاملہ ایک مدت تک درون خانہ چلتا رہا۔ رفتہ رفتہ یہ بات گھر سے باہر نکل گئی۔ شہر کی عورتوں میں یہ بات پھیل گئی اور طعنہ زنی شروع ہو گئی، عزیز کی بیوی اپنے غلام پر فریفتہ ہو گئی ہے جو مصری بھی نہیں، کنعانی ہے۔ اگر یہ لڑکا حسن و جمال کا مالک بھی ہے تو شہزادی کے حسن و جمال سے زیادہ نہ ہو گا۔ ان تمام باتوں کے باوجود یکطرفہ محبت تو شہزادی کے لیے عار و ننگ ہے کہ اس کا زر خرید غلام اس کے عشق و محبت کو اعتنا میں نہ لائے اور عورت کے لیے یہ بھی عار و ننگ ہے کہ وہ مرد کے پیچھے دوڑے۔ عین ممکن ہے کہ شہر کے بڑے خاندان کی عورتوں نے یوسف علیہ السلام کی صورت و سیرت کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے حیلہ بازیاں کی ہوں یا عزیز کی عورت کے خلاف سازش کی ہو۔ کیونکہ بعد کی آیت میں اس عمل کو مکاری سے تعبیر کیا ہے۔