آیات 25 - 28
 

وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ ؕ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا اِلَّاۤ اَنۡ یُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۲۵﴾

۲۵۔ دونوں دروازے کی طرف دوڑ پڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھاڑ دیا اتنے میں دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا، عورت کہنے لگی: جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے؟

قَالَ ہِیَ رَاوَدَتۡنِیۡ عَنۡ نَّفۡسِیۡ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ یوسف نے کہا:یہ عورت مجھے اپنے ارادے سے پھسلانا چاہتی تھی اور اس عورت کے خاندان کے کسی فرد نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا کرتہ آگے سے پھٹا ہے تو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹا ہے۔

وَ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے۔

فَلَمَّا رَاٰ قَمِیۡصَہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ ؕ اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔جب اس نے دیکھا کہ کرتہ تو پیچھے سے پھٹا ہے (تو اس کے شوہر نے) کہا: بے شک یہ (سب) تم عورتوں کی فریب کاری ہے، تم عورتوں کی فریب کاری تو بہت بھاری ہوتی ہے۔

تشریح کلمات

قَدَّ:

( ق د د ) القد کے معنی کسی چیز کو طول میں قطع کرنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ: یوسف علیہ السلام فرار ہوتے ہوئے اور وہ عورت پیچھا کرتے ہوئے دونوں ، دروازے کی طرف دوڑے۔ اس دوڑ میں یوسف علیہ السلام آگے نکل گئے۔ عورت نے پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کی تو کرتے کا پچھلا دامن پھٹ گیا۔ اسی کشمکش کے دوران اس عورت کا شوہر دروازے کے پاس پایا گیا۔ شوہر کو مصر کے قبطی لوگ سید یعنی سردار کہتے تھے۔

۲۔ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ: شوہر کو دیکھتے ہی عورت نے فوراً اپنے کو پاکیزہ اور یوسف کو حملہ آور، تجاوز کار قرار دیا اور سزا کا مطالبہ بھی کر دیا جیسا کہ ایسے موقعوں پر ہر شکست کھانے والا اپنی شکست کا انتقام لینے کے لیے کرتا ہے۔

۳۔ قَالَ ہِیَ رَاوَدَتۡنِیۡ: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی صفائی پیش کی اور حقیقت حال بیان کی کہ یہ عورت خود مجھے پھسلانے کی کوشش میں تھی۔ الزامات کا تبادلہ ہوا تو ظاہر ہے شوہر حقیقت حال جاننا چاہتا ہے۔ اس نے معاملے کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔

۴۔ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا: خود اسی عورت کے خاندان کے ایک فرد نے تحقیق کے لیے راہ دکھائی کہ اگرچہ وہاں کوئی عینی گواہ تو موجود نہ تھا لیکن واقعہ سے مربوط بعض باتوں سے حقیقت حال کا عینی نہ سہی، عقلی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ (بعض شیعہ و سنی روایات میں آیا ہے کہ شہادت دینے ولا ایک شیر خوار بچہ تھا۔ اگر شہادت دینے والا بچہ تھا تو بچے کا بولنا شہادت کے لیے کافی تھا۔ جرم کے شواہد بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔)

واقعہ یہ ہے کہ دونوں دروازے کی طرف آگے نکلنے کی کوشش میں دوڑے تھے اور قمیض پھٹی ہوئی تھی۔ اس شخص نے کہا کہ اگر قمیض آگے سے پھٹی ہوئی ہے تو اقدام یوسف علیہ السلام کی طرف سے ہوا ہو گا اور عورت نے مدافعت کی ہو گی۔ اس کشمکش میں قمیض آگے سے پھٹ گئی ہو گی اور اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو یوسف علیہ السلام بچ نکلنا چاہتے تھے۔ عورت نے ان کا تعاقب کیا ہو گا اور قمیض پیچھے سے پھٹ گئی ہو گی۔ حالات کی شہادت حضرت یوسف علیہ السلام کے حق میں تھی اور دیکھا کہ قمیض پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے۔

۵۔ اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ: بادی الرائے میں شوہر نے اپنی بیوی کو مجرم قرار دے کر کہا: یوسف علیہ السلام پر الزام لگانا تم عورتوں کی فریب کاری ہے۔

لیکن قدیم سے مراعات یافتہ طبقہ ہمیشہ اپنے گھروں میں ہونے والی جنسی فضیحتوں کو افشا ہونے نہیں دیتا۔ چنانچہ اس فضیحت کو دبانے کے لیے شوہر نے کہا:


آیات 25 - 28