آیت 21
 

وَ قَالَ الَّذِی اشۡتَرٰىہُ مِنۡ مِّصۡرَ لِامۡرَاَتِہٖۤ اَکۡرِمِیۡ مَثۡوٰىہُ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا ؕ وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوۡسُفَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ وَ لِنُعَلِّمَہٗ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ؕ وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰۤی اَمۡرِہٖ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور مصر کے جس آدمی نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا: اس کا مقام معزز رکھنا، ممکن ہے کہ وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں تمکنت دی اور اس لیے بھی کہ ہم انہیں خوابوں کی تعبیر کی تعلیم دیں اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ الَّذِی اشۡتَرٰىہُ: بائبل کے مطابق یہ شخص شاہی گارڈ کا کوئی بڑا افسر تھا۔ قرآن مجید اسے عزیز کہتا ہے۔ اسی سورہ کی آیت ۸۸ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے بھی قرآن نے عزیز کہا ہے: یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ مَسَّنَا وَ اَہۡلَنَا الضُّرُّ ۔۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص قوت و اقتدار کا مالک تھا۔ چنانچہ عزیز طاقتور اور غالب آنے والے کو کہتے ہیں۔

۲۔ اَکۡرِمِیۡ مَثۡوٰىہُ: جس شخص نے یوسف علیہ السلام کو خرید لیا تھا وہ سمجھ گیا ہو گا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ اور صاحب مقام و منزلت ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا: اس کو عزت و و تکریم سے رکھو بلکہ یہ کہا: اس کے مقام و منزلت کا احترام رکھنا۔ یعنی یہ نہ کہا اکرمیہ بلکہ کہا: اَکۡرِمِیۡ مَثۡوٰىہُ ورنہ غلاموں کا احترام نہیں کیا جاتا خواہ وہ غلام کتنا ہی لائق اور صاحب جمال ہی کیوں نہ ہو۔

۳۔ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ: یوسف علیہ السلام کی فہم و فراست سے وہ شخص بھانپ گیا کہ مستقبل میں یہ لڑکا ہمارے بہت کام آ سکتا ہے۔ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ بلکہ یہ اس قابل ہے کہ ہم اسے اپنے خاندان کا حصہ بنا لیں اور بیٹا تصور کریں۔

۴۔ مَکَّنَّا لِیُوۡسُفَ فِی الۡاَرۡضِ: یوسف علیہ السلام کو مصر میں تمکنت و اقتدار دینے کے لیے یہ پہلا زینہ تھا کہ اسے عزیز مصر کے گھر پہنچا دیا۔

۵۔ وَ لِنُعَلِّمَہٗ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ: اسی گھر میں یوسف علیہ السلام کی پاکیزگی اور عفت کا امتحان بھی لینا تھا جس میں کامیاب ہونے کے بعد تاویل الاحادیث کی تعلیم دینا بھی مقصود تھا۔

۶۔ وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰۤی اَمۡرِہٖ: اللہ اپنے امور میں غالب ہے۔ چنانچہ برادران یوسف نے اپنا پورا زور استعمال کیا۔ تجارتی قافلے نے یوسف علیہ السلام کو غلام بنا کر ذلیل کرنے کی کوشش کی۔ عزیز مصر کی عورت نے بھی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن اللہ کا امر ان سب پر غالب آیا اور یہ سب یوسف علیہ السلام کے خلاف نہیں ، ان کے حق میں ثابت ہوا جیسا کہ اللہ چاہتا تھا۔

۷۔ تلمود میں آیا ہے کہ اس عورت کا نام زلیخا تھا۔ ممکن ہے اسلامی روایات کا بھی یہی مآخذ ہو۔

اہم نکات

۱۔ الٰہی منصب پر فائز ہونے کے لیے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے: ۡوَ لِنُعَلِّمَہٗ ۔۔۔۔


آیت 21