آیت 30
 

وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ ۚ قَدۡ شَغَفَہَا حُبًّا ؕ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کیا: عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس کے ارادے سے پھسلانا چاہتی ہے، اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر چکی ہے، ہم تو اسے یقینا صریح گمراہی میں دیکھ رہی ہیں۔

تشریح کلمات

شغف:

( ش غ ف ) الشغاف دل کا اندرونی حصہ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ : یوسف علیہ السلام کے ساتھ معاشقے کا معاملہ ایک مدت تک درون خانہ چلتا رہا۔ رفتہ رفتہ یہ بات گھر سے باہر نکل گئی۔ شہر کی عورتوں میں یہ بات پھیل گئی اور طعنہ زنی شروع ہو گئی کہ عزیز کی بیوی اپنے زر خرید غلام پر فریفتہ ہو گئی ہے جو مصری بھی نہیں ، کنعانی ہے۔ فریفتگی بھی ایسی کہ دل کی گہرائیوں تک چلی گئی ہے۔ اگر یہ لڑکا حسن و جمال کا مالک بھی ہے تو شہزادی کے حسن و جمال سے زیادہ نہ ہو گا۔ ان تمام باتوں کے باوجود یک طرفہ محبت تو شہزادی کے لیے عار و ننگ ہے کہ اس کا زر خرید غلام اس کے عشق و محبت کو اعتنا میں نہ لائے اور عورت کے لیے یہ بھی عار و ننگ ہے کہ وہ مرد کے پیچھے دوڑے اور اس حد تک مرد کا پیچھا کرے کہ اس کی قمیض پھاڑ دے۔ وہ غلام بھی حسن و جمال کے ساتھ اخلاق کے کمال میں کس اعلا درجہ پر فائز ہے کہ ایسی عظیم شہزادی کے عشق کو اعتنا میں لانے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔

عین ممکن ہے کہ شہر کے بڑے خاندان کی عورتوں نے یوسف علیہ السلام کی صورت و سیرت کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے حیلے بازیاں کی ہوں یا عزیز کی عورت کے خلاف سازش بنائی ہو کیونکہ بعد کی آیت میں اس عمل کو مکاری سے تعبیر کیا ہے۔


آیت 30