آیت 24
 

وَ لَقَدۡ ہَمَّتۡ بِہٖ ۚ وَ ہَمَّ بِہَا لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ ؕ کَذٰلِکَ لِنَصۡرِفَ عَنۡہُ السُّوۡٓءَ وَ الۡفَحۡشَآءَ ؕ اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُخۡلَصِیۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ چکے ہوتے، اس طرح ہوا تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں، کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔

تشریح کلمات

ہَمَّ:

( ھـ م م ) ہَمَّ کے اصل معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ ہَمَّ بِہَا لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ: آیت کے اس جملے کا واضح مطلب یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام اس کا ارادہ کر لیتے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ چکے ہوتے۔ چونکہ یوسف علیہ السلام برہان رب دیکھ چکے تھے اس لیے گناہ کا ارتکاب نہیں کیا۔ جس طرح فرمایا:

وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ وَ رَحۡمَتُہٗ لَہَمَّتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّضِلُّوۡکَ ۔۔۔۔ (نساء۱۱۳)

اور (اے رسول) اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔۔

آیت کا مفہوم یہ ہرگز نہیں ہے کہ یوسف علیہ السلام نے بھی گناہ کا ارادہ کر لیا تھا جیسا کہ بعض اکابر مفسرین اہل سنت کا خیال ہے۔ برھان جو انبیاء علیہم السلام کو اللہ کی طرف سے دکھائی جاتی ہے وہ علم یقینی ہے جو کسی محسوس ذریعہ ادراک سے نہیں بلکہ اس قوت کے ذریعے درک ہوتا ہے جو تمام ادراکات و محسوسات کا مرکز ہے۔ جس کو نفس، ضمیر، وجدان اور احیاناً قلب کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انبیاء علیہم السلام برہان الٰہی کو اپنے پورے وجود کے ساتھ وصول کرتے ہیں۔ اسی لیے اس برہان سے یقین کی اس منزل پر فائز ہوجاتے ہیں جہاں کسی قسم کے شک و تردد کی گنجائش نہیں ہوتی اور یقین کی اسی منزل سے عصمت شروع ہوتی ہے۔ جیساکہ عام انسان دنیاوی مسائل میں اگر یقین کی اسی منزل پر ہو تو وہ بھی جان بوجھ کر خلاف ورزی نہیں کرتا۔ مثلاً کوئی عاقل انسان جان بوجھ کر اپنے آپ کو آگ کے بھٹے میں نہیں ڈالتا چونکہ انجام کا علم ہے۔

۳۔ کَذٰلِکَ لِنَصۡرِفَ عَنۡہُ السُّوۡٓءَ: یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان سے گناہ کی قوت سلب ہو جاتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتے ہیں اور خواہشات بھی رکھتے ہیں لیکن اپنے محکم یقین کی وجہ سے گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں ان کا مضبوط یقین، خواہشات پر غالب آ جاتا ہے جب کہ غیر معصوم میں خواہشات، یقین پر غالب آ جاتی ہیں۔

یوسف علیہ السلام کو برھان دے کر گناہ سے دور اس لیے رکھا کہ وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ برگزیدہ بندوں کو برھان دی جاتی ہے اور جن کو برھان ملتی ہے وہ معصوم ہوا کرتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ یقین کی کمزوری کی وجہ سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔

۲۔ اللہ کے خالص بندے معصوم ہوا کرتے ہیں۔


آیت 24